کیا 2014 ء لوک سبھا چناؤ مودی بنام راہل ہوگا؟

کیا 2014ء کا لوک سبھا چناؤ نریندر مودی بنام راہل گاندھی لڑا جائے گا؟ یہ دعوے سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن محسوس تو ایسا ہی ہورہا ہے۔ سب طرح کی کوشش کرنے کے باوجود بھی گجرات میں نریندر مودی کو تیسری مرتبہ کامیابی پر کانگریس بھلے ہی کچھ کہے یا نہ کہے لیکن چناوی نتائج نے تو کانگریس لیڈر شپ کے سامنے کئی نئی چنوتیوں کی زمین تیار کردی ہے۔ کانگریس نے گجرات میں مودی بنام راہل لڑائی سے بچنے کی جو حکمت عملی بنائی تھی وہ کافی حد تک کامیاب رہی۔ نریندر مودی نے کوشش کی کہ کانگریس گجرات چناؤ کو مودی بنام راہل بنائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ 2009 کے عام چناؤ میں کانگریس کی پرفارمینس بہتر ہونے کے بعد گذشتہ برسوں میں اترپردیش ، بہار، مغربی بنگال، پنجاب، اتراکھنڈ کے انتخابات میں کانگریس کی چناؤ مہم راہل گاندھی کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے باوجود اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، پنجاب میں پارٹی کچھ خاص کرشمہ نہیں دکھا سکی، جیسا کہ امید تھی۔ راہل کارڈ فلاپ ثابت ہوئے لیکن ووٹ نہیں گھٹ پائے۔ ان ریاستوں میں کانگریس تنظیم ، گروپ بندی، ٹکٹوں کے بٹوارے میں گڑبڑ یہ بھی کئی اسباب رہے جو کانگریس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئے۔ پارٹی کو جو امید تھی کہ راہل کا کرشمہ ان سب کمیوں کو ڈھک دے گا، وہ کامیاب نہیں ہوپایا۔ اس ٹریک ریکارڈ کے باوجود کانگریس اگلا لوک سبھا چناؤ راہل کی رہنمائی میں لڑنے کے لئے انہیں بڑی ذمہ داری سونپنے کا خاکہ تیار کرچکی ہے۔ راہل کے سب سے بڑے وفادار دگوجے سنگھ نے تو کہنا بھی شروع کردیا ہے کہ کانگریس2014ء کا چناؤ ان کی لیڈر شپ میں لڑے گی اور راہل کانگریس کے پی ایم امیدوار ہوں گے۔ پارٹی کے کئی دیگر لیڈر و مرکزی وزیر منموہن سنگھ کے رہتے ہی 2014ء چناؤ کے بعد راہل کووزیر اعظم بنانے کا ابھی سے زور لگا رہے ہیں۔ رہی بات خود کے بل پر تیسری بات چناؤ جیت کر گجرات میں بھگوا پرچم لہرانے والے نریندر مودی کو اپنی ماں کے آشیرواد کے علاوہ بھاجپا کے بڑے نیتاؤں کے حصے نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے پروجیکٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ نریندر مودی کو سب سے زیادہ دقت این ڈی اے اتحادی پارٹیوں سے ہوگی۔ این ڈی اے کے جنتا دل (یو ) جیسی اتحادی پارٹی کی حمایت کا مسئلہ ہے۔جنتادل (یو) لیڈر اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار فی الحال تو مودی کی کامیابی پر خاموش ہیں لیکن ان کے سپہ سالار یہ کہنے سے نہیں کتراتے کے وزیر اعظم عہدے کی امیدواری کا فیصلہ چناؤ سے پہلے ہی ہوجائے۔ بھاجپا فی الحال اس سے بچ رہی ہے لیکن وہ اس مسئلے کا حل نکالنے میں لگ گئی ہے۔ یہ ممکن ہے بھاجپا لیڈرشپ ابھی تو کئی ریاستوں میں ہونے والے چناؤ میں مودی کو اسٹار کمپینر بنائے۔ پورے دیش میں گھومنے سے پتہ چلے گا کہ مودی گجرات کے باہر کتنے مقبول ہیں۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ بھاجپا کے پاس مودی کا راہل سے مقابلہ کرنے کے لئے اور بھی کئی طریقے ہیں لیکن ان پر قطعی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس وقت دہلی میں لڑکو ں کی ناراضگی ساتویں آسمان پر ہے۔ راہل تو نوجوانوں کے سامنے آنے کی بھی ہمت نہیں کرپا رہے۔ اگر نریندر مودی یہ احساس کریں اور طلبا کو دہلی آکر خطاب کریں تو ان کی مقبولیت اور بھی بڑھے گی۔ بھاجپا کا بھی اس سے تھوڑا بھلا ہوجائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟