اگر سرکار ،پولیس،عدالت چاہے تو آبروریزی معاملہ 10 دن میں نپٹ سکتا ہے

راجدھانی میں ایتوار کی رات چلتی بس میں آبروریزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبے کو لیکر آج چھٹے دن بھی بڑی تعداد میں طالبات اور عورتوں نے مظاہرہ، دھرنا اور کینڈل مارچ جاری رکھے۔ نئی دہلی میں راج پتھ، انڈیا گیٹ،صفدر جنگ ہسپتال، جنترمنتر اور پی ایم او اور وزارت داخلہ جیسے اہم مقامات پر دن بھر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ سبھی کی ایک ہی مانگ تھی کہ قصورواروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ دراصل آج اگر عوام اتنی ناراض ہے تو اس لئے بھی کیونکہ بدمعاشوں کا حوصلہ بڑھنے کی ایک وجہ ہمارا سسٹم بھی ہے۔ بدفعلی کے معاملے میں10-10 سال عدالت میں مقدمہ چلے گا تو ایسے میں اس طرح کے واقعات پر کیسے روک لگ سکتی ہے؟ دہلی کی الگ الگ عدالتوں میں آبروریزی کے10 ہزار سے بھی زیادہ معاملے اس وقت زیر سماعت ہیں اگر پورے دیش کا حساب لگا لیا جائے تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ حکومت فاسٹ ٹریک عدالت بنانے کی بات تو کررہی ہے ۔پولیس اگر صحیح طریقے سے چھان بین کرے تو ایسے معاملوں میں 7 سے10 دن میں چھان بین پوری کی جاسکتی ہے۔ قانونی ماہر بتاتے ہیں کہ سب کچھ پولیس کی قوت ارادی پر منحصر کرتا ہے ۔ پولیس چاہے تو سات سے دس دن میں چھان بین پوری کرکے چارج شیٹ داخل کرسکتی ہے اور اس کے بعد روزانہ سماعت کی جائے تو زیادہ وقت نہیں لگنا چاہئے لیکن پولیس کو چھان بین کے دوران کچھ اہم نکات پر ضرور توجہ دینی ہوگی تاکہ چھان بین میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ سپریم کورٹ کے سینئروکیل کے ۔ٹی ۔ایس تلسی نے بتایا کہ پولیس کو اس طرح کے معاملے میں سائنسی ثبوت پر توجہ دینی چاہئے۔بس برآمد کی جا چکی ہے، ملزم گرفتار ہوچکے ہیں، بس سے فنگر پرنٹ سے لیکر خون کا سیمپل اور واردات میں استعمال لوہے کی چھڑ وغیرہ برآمدہوچکی ہیں۔ ان تمام نمونوں کی فورنسک رپورٹ آنی چاہئے۔ اور ایف آئی آر کی بنیاد پر فورنسک لیب سے کہا جائے کہ وہ رپورٹ جلد دے دے۔ سپریم کورٹ کے فوجداری کے وکیل ڈی ۔وی گوسوامی نے بتایا کہ آبروریزی کے واقعات میں لڑکی کا بیان بہت اہم ہوتا ہے۔ جہاں تک موجودہ معاملے کا سوال ہے تو اس معاملے میں لڑکی کا بیان درج ہوچکا ہے۔ساتھ ہی لڑکی کا میڈیکل ٹیسٹ کرنے والے ڈاکٹر کا بیان بھی لیا جائے گا، جس پولیس کانسٹیبل نے ایف آئی آر درج کی ہے اس کا بیان بھی لیا جائے گا، اس کے علاوہ جانچ افسر کا بیان اور فورنسک جانچ کرنے والے افسر کا بیان بھی قلمبند ہونا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اگر چاہے تو100 نمبر ڈائل کرنے والے شخص اور اس کی کال اٹینڈ کرنے والے پولیس کانسٹیبل کو بھی گواہ بنا سکتی ہے۔ لڑکی اور اس کے دوست دونوں کی میڈیکل رپورٹ ملزمان کی میڈیکل رپورٹ کے ساتھ فورنسک رپورٹ اہم ثبوت ہے۔ ان گواہوں کے انتخاب اور ثبوتوں کو اکٹھا کرنے میں پولیس کو 7 سے 10 دن کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد پولیس چارج شیٹ داخل کرے۔ چارج شیٹ فورنسک رپورٹ کے بغیر داخل ہوسکتی ہے اور رپورٹ آنے پر ضمنی چارج شیٹ داخل کی جاسکتی ہے۔ پولیس کو چاہئے کہ وہ گواہوں کی لمبی لسٹ نہ بنائے اور صرف اہم بیانات پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔ یومیہ سماعت ہونی چاہئے۔ ممکن ہو تو صرف خاتون جج مقدمہ سنیں اور خاتون وکیل ہی پیش ہوں۔ لڑکی سے بیہودہ سوالوں سے بچا جائے۔ صرف ان سوالوں پر توجہ مرکوز کی جائے جو سزا کے لئے ضروری ہیں۔ ایسے معاملوں میں اپیل کے معاملے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ یہ تو اس کی میعاد اور کارروائی طے کی جائے یا پھر اپیل یا رحم کی پوزیشن میں نہ رکھی جائے لیکن یہ سب کچھ پولیس ، سرکار ،عدالت و فورنسک اور سائنسی لیب کی رپورٹ پر منحصر ہوگا۔ تکلیف دہ پہلو ایک یہ بھی ہے کہ ہم اس سرکار و عوامی نمائندوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں جن میں کئی ممبر اسمبلی سابق ممبر اسمبلی و ممبر پارلیمنٹ خود بدفعلی کے الزامات میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ ایسے سنگین الزامات کو بھی سیاسی اشو بنا کر معاملے کو آگے بڑھنے سے روک یتے ہیں۔ جنتا بھی ایسے خطرناک ملزم نیتاؤں کو بار بار کیوں چنتی ہے۔ ہماری سمجھ سے تو باہرہے کیونکہ یوپی اے اقتدار میں ہے ہم کانگریس صدر سونیا گاندھی سے بہت امید رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں پہل کرکے ایسا سسٹم بنوادیں تاکہ آبروریزی کے معاملوں کا نپٹارہ شروع سے سزا تک 10 دن میں ختم ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟