اور شندے صاحب پوچھتے ہیں کہ اب لوگ کونسا انصاف چاہتے ہیں؟

مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کہتے ہیں کہ آبروریزی کے خلاف عوام کیوں آندولن کررہی ہے۔ان لوگوں کی زیادہ تر مانگیں مانی جاچکی ہیں۔ ضروری کارروائی کی جارہی ہے۔ قانون میں ترمیم کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ اب لوگ کونسا انصاف چاہتے ہیں؟ ہم بصد احترام وزیر داخلہ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے کونسا انصاف کردیا؟ سارا دیش آبروریزی کرنے والوں کو موت کی سزا کی مانگ کررہا ہے، کیا آپ نے ایک بار بھی یہ صاف کہا ہے کہ متاثرہ لڑکی سے غیر انسانی برتاؤ کرنے والوں کو پھانسی دینے کا انتظام کیا جارہا ہے؟ نہیں؟ آپ تو اصل اشو کو دبانے و عوام کی آواز کو کچلنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے آپ کی وزارت کی گمراہی کی وجہ سے ایک بہادر پولیس جوان کی موت ہوگئی۔ اجتماعی آبروریزی کے خلاف انڈیا گیٹ پر ایتوار کو تشدد پر مبنی مظاہروں کے دوران بری طرح زخمی دہلی پولیس کے 47 سالہ کانسٹیبل سبھاش چندر کی موت ہوگئی۔ اس حکومت کا حالات سے غلط طریقے سے نمٹنے کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ دہلی پولیس بنام دہلی حکومت تنازعہ چھڑا ہوا ہے۔ طالبہ سے آبروریزی کے معاملے کو لیکر دہلی پولیس اور شیلا سرکار کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ وزیر اعلی شیلا دیکشت نے الزام لگایا ہے کہ متاثرہ لڑکی کا بیان درج کرنے گئی ایس ڈی ایم کو دہلی کے پولیس افسروں نے دباؤ میں لیا ہے جبکہ دہلی پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ الزام لگانے والی ایس ڈی ایم پہلے بھی ایسی مشکلیں کھڑی کرچکی ہے۔ دراصل معاملہ متاثرہ لڑکی کے بیان درج کرنے والی سب ڈویژنل مجسٹریٹ اوشا چترویدی سے جڑا ہوا ہے۔ ایس ڈی ایم نے الزام لگایا کہ متاثرہ لڑکی کا بیان درج کرنے کے دوران پولیس نے دباؤ بنا کر اپنی سہولیت کے حساب سے بیان درج کرنے پر مجھ سے برا برتاؤ کیا۔ ویڈیو گرافی کرنے کو لیکر بھی کافی وقت خراب ہوا کیونکہ پولیس ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔ پولیس، دہلی حکومت اور وزارت داخلہ کے درمیان کون صحیح کہہ رہا ہے اس میں طالبہ کو انصاف دلانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ خاص اشو تو آج بھی وہی ہے جو ایتوار کو تھا۔ قصورواروں کو سزا کب اور کیا ملے گی؟ انتہائی دکھ کا موضوع ہے کہ سرکار سبھی تحریکوں کے ساتھ ایسے ہی برتاؤ کرتی آرہی ہے کہ مانو وہ اپوزیشن پارٹیوں کے مفاد سے متاثر ہے اور کچھ کرائے کے لوگوں کے ذریعے کی گئی آندولن تحریکوں ایتوار سے لیکر اب تک پولیس نے انڈیا گیٹ اور دیگر مقامات پر لڑکوں سے جس طرح برتاؤ کیا ویسا عام طور پر کرائے کے مظاہرین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا سرکار کو ناراض طالبہ سے بات کرنی چاہئے تھی اور انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن یہ سرکار اتنی شش و پنج میں رہی کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ مظاہرین سے کیسے نپٹے؟ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ حکومت نے تحریک کے کریکٹر کو سمجھنے میں بھول کی ہے۔ابھی بھی تحریک میں آدھے سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو کسی بھی تنظیم کے ذریعے لائے گئے کرائے کے لوگ نہیں ہیں۔ سرکار ایسا سمجھ رہی ہے کہ یہ پوری تحریک دہلی میں ہوئی ایک آبروریزی کے بارے میں ہے جبکہ یہ ایک جوالہ مکھی ہے جو اس معاملے سے بھڑکی ہے۔ کئی برسوں سے لوگوں کے دل میں آبروریزی کو لیکر ناراضگی ہے اس دیش میں عورتیں چاہے غریب ہوں یا امیر خود کو غیر محفوظ مانتی ہیں۔ دہلی کا واقعہ دیش کی ناراضگی کی علامت بن گیا ہے۔ سرکار اس مسئلے کو 7-8 پولیس ملازمین کو معطل کرکے سلجھا لینا چاہتی ہے۔ سوال یہاں اہم ہے کہ کیا دہلی پولیس ہی دیش میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ دار ہے؟ کیا مرکزی سرکار، دہلی حکومت یا ریاستی حکومتیں و افسران ،عدلیہ ذمہ دار نہیں ہیں؟ عام جنتا کی حفاظت کے لئے بنائی گئی دہلی پولیس کا ایک بڑا حصہ سیاستدانوں ،رسوخ دار لوگوں کی سکیورٹی میں کیوں تعینات رہتا ہے، خاص کر ان لوگوں کی سکیورٹی میں کیوں لگایا گیا ہے جو خود داغ دار ہیں اور جن کے اپنے مجرمانہ بیک گراؤنڈ ہیں؟ آج بھی فورنسک لیب میں کئی عہدوں کی کمی ہے۔ جس سے کرائم کی ریسرچ میں دیری ہوتی ہے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ کا مسئلہ بھی برسوں سے زیر بحث تھا لیکن اس پر کبھی بھی مضبوطی سے فیصلہ پہلے کیوں نہیں لیا گیا؟ عدالتوں میں بھی ججوں کی تقرری کے معاملے مناسب تناسب کے حساب سے نہیں نپٹائے جاتے۔ اس سب کا اثر قانون و نظم پر پڑ رہا ہے۔ ان خامیوں کے لئے پولیس کمشنر نہیں سرکار میں بیٹھے ہوئے سیاستداں اور افسران ذمہ دار ہیں۔ کیا سرکار تب ہلے گی جب بیچاری لاچار بے سہارا لڑکی کو مردہ اعلان کردیا جائے گا؟ اس کو اتنا مارا پیٹا گیا ہے کہ وہ بیچاری بچ تو گئی ہے لیکن اس کی زندگی جہنم ہوجائے گی۔ پچھلے30 برسوں میں آبروریزی اور قتل کے گھناؤنے معاملوں میں محض تین لوگوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ پھانسی دینے کا قانون بنا دینے بھر سے مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ سخت سے سخت سزا ضروری ہے۔ ایسے معاملوں میں پختہ قوت ارادی دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک حکمراں طبقے میں بیٹھے عوام کے آقاؤں کے ذریعے قوت ارادی نہیں جاگے گی تو پھانسی کی سزا کیا کر لے گی؟ سڑکوں پراترے لڑکوں کی یہ ناراضگی حکمراں طبقے کی اس لیپا پوتی کا ہی نتیجہ ہے۔ معافی دینے میں ریکارڈ قائم کرنے والی ہندوستان کی سابق صدر پرتیبھا دیوی سنگھ پاٹل تو رحم کی عرضیوں پر اپنی دریا دلی دکھاتے وقت بھول گئیں کہ جن لوگوں کی پھانسی کی سزا وہ معاف کررہی ہیں ان میں 7 ایسے درندے ہیں جنہوں نے نابالغ بچیوں کے ساتھ نہ صرف بدفعلی کی بلکہ ان کو بے رحمی سے قتل بھی کیا۔ ان سبھی رحم کی عرضیوں پر صدر کے پاس سفارش وزیر داخلہ شندے صاحب کی طرف سے ہوئی تھی۔ یہ 7 وہ درندے ہیں جن پر ملامت آمیز حرکت کی سزا پھانسی بھی کم مانی جائے گی۔ بدفعلیوں کو سزا دینے پر پورا دیش ایک رائے ہے۔ اس بڑی مہم کے ذریعے ایک اخبار نے رائے جانی ہے تو 11 ریاستوں کے وزرائے اعلی ، یہاں کے اپوزیشن و حکمراں لیڈر 143 ایم پی، ایم ایل اے پھانسی کے حق میں ہیں۔ یہ ہی نہیں لوک سبھا اسپیکٹر دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کے لیڈر کئی مرکزی وزیر بھی اپنی رضامندی ظاہر کررہے ہیں تو آخر پھانسی کے قانون پر مرکزی سرکار اسپیشل اجلاس بلانے سے کیوں ڈر رہی ہے؟اگر سرکار ججوں کی بات کرتی ہے تو وہ ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے بہوگنا ساکن بٹھیل چوپڑا کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس طرح کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ جسٹس پرتاپ ہرداس اور ارون چودھری کی بنچ نے کہا عورتوں کے خلاف سنگین جرائم کے لئے سزائے موت دی جانی چاہئے۔ رہی بات دنیا کے رد عمل کی ،پہلی بات تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے، دوسری بات دنیا کے دوسرے ممالک میں پھانسی دی جارہی ہے۔ عرب ممالک میں تو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے لئے پھانسی سے بھی زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے۔ ایران میں اگر ایسا معاملہ آتا ہے تو وہاں عام معاملوں میں کوڑے مارنے کی سزا اور گھناؤنے معاملوں میں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ ایسی ہی کچھ حالت عراق میں بھی ہے۔ یہاں کے شرعی قانون کی بنیاد پر چوراہے پر مجرم کو پتھر مار کر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ فلپائن میں بھی آبروریز کی سزا موت ہے۔ سعودی عرب میں سب سے بڑا قانون ہے وہاں کوڑے مارنے سے لیکر کھلے عام پھانسی تک کی سزا ہے اور پھانسی بھی ایسے دی جاتی ہے کہ اگر عام آدمی پہلی بار اس منظر کو دیکھے تو بیہوش ہوجائے۔ سری لنکا اور پاکستان میں بھی آبروریزی کے گھناؤنے معاملوں میں موت کی سزا ہے۔ چین میں تو آبروریزکو ڈنڈے مارنے کی سزا و گلا گھونٹ کر مارا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی آبروریزی کی سزا میں الیکٹرانک بجلی کے شاک دئے جاتے ہیں اور ہمارے شندے صاحب پوچھتے ہیں کہ جنتا اب کیا چاہتی ہے؟ یہ ہی نہیں شندے صاحب نے تو مظاہرین طلبا کو ماؤوادی تک کہہ دیا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟