آزاد بھارت کی تاریخ میں اتنی مجبور قیادت پہلے کبھی نہیں دیکھی

یہ بڑے ہی دکھ کا موضوع ہے کہ دہلی میں نئی نسل کی ہمت کو جس طرح سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس چھوڑ کر توڑنے کی کوشش کی ہے اس کی جتنی بھی ملامت کی جائے کم ہے۔ اس کارروائی نے سارے دیش کو ہلا دیا ہے۔ آبروریزی کے خلاف نوجوانوں میں پیدا ہوئے غصے کو لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پانی کی بوچھار سے بھی سرکار خاموش نہیں کرپائی۔صبح سے رات تک انڈیا گیٹ پر مظاہروں کا دور جاری رہا۔ پہلی مرتبہ وجے چوک پر اتنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی جس کا مطالبہ صرف انصاف اور سکیورٹی ہے۔ ان میں سے کوئی نہ تو کسی پارٹی کا ہے اور نہ ہی کسی ذات کا اور نہ ہی کسی ایک جگہ کا ہے۔ یہ کارروائی صرف ان نوجوانوں کو کچلنے کی نہیں تھی۔ عورتوں کے وقار کے حق میں اٹھ رہی آواز کو دبانے کی بھی تھی۔ سارا دیش جب مرکزی سرکار سے ایسے شاطر ملزمان کو سزائے موت دینے سے متعلق قانونی ترمیم کا انتظار کررہا تھا تب جوڈیشیل کمیشن بنانے جیسا قدم رات کو سامنے آیا۔ قصاب کو پھانسی دینے کا سہرہ لینے والے وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے اتنے دباؤ کے بعد بھی کچھ نہ دے سکے۔ ’’سزائے موت ‘‘ لفظ کہنے تک بچتے رہے۔ حقیقت میں یہ منموہن سرکار خود خوفزدہ ہے۔ کوئی سخت فیصلہ لے سکے یہ ہمت اس میں نہیں ہے۔ اس لئے کسی خاتون کو بھروسہ نہیں کہ کمزور لیڈر شپ اس کی حفاظت کرسکتی ہے۔ عورتوں کے وقار کو اس طرح سے تار تار کیا جانا ،جیسا ایتوار کو طالبہ کے ساتھ کیا گیا، ہماری نظروں میں تو یہ ناقابل معافی جرم ہے اس لئے خاندانی جرائم کو بھی سرکار الگ الگ زمروں میں ڈالنا چاہ رہی ہے۔ قتل پر تو پہلے ہی سزائے موت ہے، یوں ہی سرکار تھوڑے ہی کسی کو پھانسی کی سزا سنا سکتی ہے یہ تو عدالت پر منحصر ہے؟ آپ کو تو صرف قانون میں اتنی ہی ترمیم کرنی ہے اس لئے نئی ترمیم لانے میں آنا کانی کیوں؟ کیا سرکار کو ایسے جرائم پیشہ افراد کی زیادہ فکر ہے ؟ وہ تو اس مسئلے پر بحث سے بھی گھبرا رہی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ بھی ایک ہفتے بعد ہوگی۔ عدالتوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ عدالت وہ سزا نہیں دے سکتی جس کا قانون میں ذکر ہی نہیں ہے۔ آبروریزی کے لئے قانون میں 10 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا کی سہولت ہے۔ جج تک مانتے ہیں کہ جن معاملوں میں متاثرہ کی زندگی موت سے بدتر بن گئی ہو ،جیسا کہ اس معاملے میں ہے، قصورواروں کو موت کی سزا ملنی چاہئے۔ اس کے لئے قانون میں ضروری ترمیم ہونی چاہئے۔1994ء میں بدفعلی اور قتل کے گھناؤنے جرم کے لئے دھننجے چٹرجی کی پھانسی پر مہر لگاتے وقت سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عورتوں کے تئیں بڑھتے تشدد والے جرائم پر سزا کے بارے میں بڑی پیچیدگیاں ہیں۔ زیادہ تر کو سزا نہیں ہوتی۔ مہاراشٹر کے ایک ٹیچر شیواجی کو بدفعلی اور آبروریزی کے جرم میں موت کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے پھر کہا کہ قصوروار کو مناسب سزا دیکر سماج کو انصاف کی پکار کا جواب دینا چاہئے۔ قانون کا مقصدسماج کی حفاظت اور جرائم پیشہ کور خوفزدہ کر جرائم کرنے سے روکنا ہے۔ ہماری رائے میں صدر بھی تھوڑا چوک گئے۔ نوجوانوں سے کھل کر ہی مل لیتے۔ پیپلز پریزینڈنٹ بن جاتے۔ عبدالکلام سے بھی آگے بڑا موقعہ تو کانگریس صدر کے پاس تھا۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی چاہتیں تو تاریخی فیصلہ لے بھارت کی سرزمین کو وقار دلا سکتی تھیں۔ گاندھی خاندان کے ممبر کیا یہ بھول گئے کہ جب دہلی کے پہاڑ گنج میں خوفناک آگ لگنے پر راجیو گاندھی خود موقعے پر پہنچ گئے تھے اور لوگوں کی مدد میں لگ گئے تھے۔ دیگر گڑ بڑیوں میں انہوں نے ایک خارجہ سکریٹری اور ایک وزیر اعلی کو برخاست کردیا تھا۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب سیاسی اقتدار کی بجائے افسروں کی حکومت ہے۔ پچھلے پانچ دنوں سے ہزاروں لڑکے لڑکیاں سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں۔ وقت رہتے انہیں خاموش کرنے کے بجائے ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس، پانی کی بوچھاریں ماری جارہی ہیں۔ اس آبروریزی واقعہ کے ملزمان کی گرفتاری اور پانچ پولیس ملازمین کی معطلی سے محض دہلی پولیس ،دہلی سرکار ، انتظامیہ اور وزارت داخلہ ذمہ دار ی سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔ عام جنتا کی قربانی لینے کی جگہ سیاسی پارٹی ،بدنظمی اور قانون میں فوری تبدیلی کے لئے ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھانے جارہی ہے؟ راجدھانی میں بگڑے حالات کیا پورے سیاسی نظام کے لئے داغ نہیں ہیں؟ آزاد بھارت کی تاریخ میں اتنی مجبور لیڈر شپ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!