بھاجپا ہاری نریندر مودی جیتے۔۔۔2

ہماچل پردیش کے ووٹروں نے جو روایت 1977ء میں شروع کی تھی کہ کسی بھی پارٹی کو مسلسل دوسری مرتبہ سرکار بنانے نہیں دیں گے ، اس پر قائم رہی ہے اور حکمراں بھاجپا کو ہٹا کر پھر سے کانگریس کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی ہے۔ حکمراں بھاجپا41 سیٹوں سے سمٹ کر26 سیٹوں پر پہنچ گئی ہے اور کانگریس 23 سے بڑھ کر36 سیٹیں ہی جیت پائی ہے۔ کافی عرصے سے تنازعوں اور کرپشن کے الزامات سے گھری کانگریس کے لئے ہماچل کے نتیجے کافی حد تک نہ صرف تسلی بخش رہے بلکہ نئی طاقت دینے والے ثابت ہوسکتے ہیں۔ اترا کھنڈ کی طرز پر ہماچل میں بھی کانگریس اوربھاجپا کے درمیان ٹکر تھی۔ ایگزٹ پول کانٹے کی ٹکر بتا رہے تھے یہ غلط ثابت ہوا۔ بھاجپا جہاں پنجاب کو دوہرانا چاہتی تھی وہیں کانگریس اتراکھنڈ کی نظیر سامنے رکھ کر چل رہی تھی۔ ایسے میں ہماچل کی روایت اور اینٹی کمبینسی فیکٹر کا سہارا لیتے ہوئے کانگریس اپنے لئے واضح اکثریت پانے میں کامیاب رہی۔ ہماچل میں کانگریس کی جیت کی ایک وجہ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت بھی رہیں۔ شیلا جی نہ صرف ہماچل اسکریننگ کمیٹی کی چیئرمین تھیں بلکہ انہی کی وجہ سے کانگریس کے سابق وزیر اعلی و سینئر لیڈر ویر بھندر سنگھ کی واپسی ہوئی ہے۔ کرپشن کے الزام لگانے کے بعد ویر بھدر سنگھ نے مرکزی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اس کے بعد انہیں سائڈ لائن کیا جارہا تھا۔ بعد میں انہیں ہماچل کانگریس کا پردھان بنایا گیا اور ہونے والے وزیر اعلی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا فائدہ کانگریس کو پہنچا۔ ہماچل میں بھاجپا کی ہار کافی حد تک اس کے اندر جاری رسہ کشی کی وجہ سے ہوئی۔ ٹکٹ بٹوارے میں گروپ بندی کے چلتے صحیح ٹکٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی۔ شانتاکمار اور جے پی چڈھا جیسے سرکردہ نیتاؤں کو کنارے کرکر ناراض کردیا گیا۔ چڈھا کے کہنے پر تین سیٹیں دی گئیں ۔ تینوں سیٹیں بھاجپا نے جیت لیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گروپ بندی کے چلتے بڑے نیتاؤں کے اثر کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا۔ ہماچل میں چناؤ مہم کی کمان خود بھاجپا پردھان نتن گڈکری نے سنبھال رکھی تھی اور چناؤ مہم کے لئے بھی۔جبکہ خود پردھان کرپشن کے الزامات سے گھرا ہو تو آپ حریف (ویر بھدر سنگھ ) کے کرپشن کے الزامات پر کیا کہہ سکتے ہیں؟ بھاجپا کے وزیراعلی پریم کمار دھومل شروع سے ہی دفاع کی شکل میں چناؤ لڑے انہوں نے اپنی حکومت میں ترقی کی بات کی۔ مرکزی سرکار کے ذریعے مہنگائی کے مسئلے اور وزیر بھدر سنگھ کے کرپشن پر زیادہ توجہ رکھی۔ ہماچل میں ووٹروں میں ایک بہت بڑا طبقہ ریاستی ملازمین کا ہے۔ یہ دھومل سرکار کے خلاف تھا۔ ویسے بھی ویر بھدر سنگھ کی آج بھی ان میں اچھی خاصی پکڑ بنی ہوئی ہے۔ ہماچل میں دھومل کے لڑکے انوراگ ٹھاکر کی غیر مقبولیت بھی ایک اشو بنی۔ ہماچل میں جنتا نے دھومل کو ہرایا۔ اگر وہ کانگریس کو جتاتی تو کانگریس36 سیٹوں سے آگے نہ اٹک سکتی تھی۔ یہ بہت زیادہ ہوتا۔ ہماچل کے نتیجے 2014 ء لوک سبھا چناؤ میں اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیا یہاں سے کل ملا کر 4 ایم پی آتے ہیں لیکن ہوا بنانے میں مددگار ضرور ہوتے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں کہ بھاجپا ہاری نریندر مودی جیتے۔ گجرات ہماچل کے چناؤ نتیجے کو سال2014ء میں ہونے والے عام چناؤ سے جوڑنا جلد بازی ہوگی۔ مودی کی یہ جیت پارٹی کے لئے اہم ہے۔ان کی وزیر اعظم عہدے کے لئے دعویداری مضبوط کرتی ہے لیکن اس جیت سے یہ اندازہ قطعی نہیں لگایا جاسکتا کہ 2014ء میں بھاجپا اقتدار میں آرہی ہے۔ اگلی9 ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں جس میں ہوسکتا ہے کہ عام چناؤ کی تصویر کچھ صاف ہوجائے۔ موٹے طور پر اگر ہمیں گجرات ، ہماچل کا تجزیہ کرنا ہوتو اقتصادی طور پر خوشحالی والی ان دونوں ریاستوں میں چناؤ میں مرکزی اشو مثلاًمہنگائی، کرپشن، بڑھے گھوٹالے حاوی نہیں تھے۔ گجرات میں مودی اور ہماچل میں ویر بھدر سنگھ کی پہچان بھی چناؤ جیتنے کی خاص وجہ بنی۔ کل ملاکر دونوں ہی قومی پارٹیاں کانگریس اور بھاجپا ان دونوں ریاستوں کے نتیجوں سے خوش ہوں گی اور اپنی اپنی یت بتائیں گی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!