’فاسٹ ٹریک‘ عدالت یعنی جلد انصاف کی زمینی حقیقت

پچھلے دنوں چلتی بس میں آبروریزی کے واقعہ کے بعدحکومت نے آبروریزی کے معاملوں کیلئے فاسٹ ٹریک کورٹ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کا جہاں ہم خیر مقدم کرتے ہیں وہیں یہ بھی ضرور بتانا چاہیں گے کہ اس کو عمل میں لانا اتنا آسان نہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے دہلی کی سبھی 6 عدالتوں (ضلع کورٹ) میں ان گینگ ریپ معاملوں کی تفصیل بھی تیار کرلی ہے جس سے ان معاملوں کی سماعت فاسٹ ٹریک کورٹ میں یومیہ بنیاد پر شروع کرائی جاسکے۔اس کی خاص وجہ متاثرین کو جلدی انصاف دلانا ہے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ سے مراد ایسی کورٹ سے ہے جس میں ایک خاص طرح کے مقدمات کی سماعت ہوگی۔ اس وقت منشیات اسمگلنگ سے جڑے کیسوں کے نپٹارے کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ بنائی گئی ہے لیکن اب بدقسمتی یہ ہے کہ اب ان سبھی فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ان کے علاوہ دوسرے معاملات کی بھی سماعت ہوتی ہے اس سے یہ محض نام کی ہی فاسٹ ٹریک کورٹ رہ گئی ہے۔ ان عدالتوں میں اسپیشل معاملوں کے فیصلے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔ آبروریزی کے معاملے کے بعد دیش بھر میں پیدا ناراضگی سے حکومت فاسٹ ٹریک کورٹ بنا کر بدفعلی کے معاملوں کو جلدی سے جلدی نپٹارہ کرنے کی بات کہہ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کے محض پانچ فاسٹ ٹریک عدالتیں بنا دینے سے بدفعلی کے معاملوں کا نپٹارہ ممکن نہیں ہوگا۔دہلی کی عدالتوں میں ایسے دس ہزار سے بھی زیادہ معاملے زیر التوا ہیں۔ وہیں قائم کی جارہی پانچ فاسٹ ٹریک کورٹ کے پاس کم سے کم دو دو ہزار معاملوں کو نپٹانے کی چنوتی ہوگی جو آسان نہیں ہے۔ اس لئے عدلیہ کی کارروائی سے وابستہ لوگ دہلی میں کم سے کم 20 فاسٹ ٹریک کورٹ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ بدفعلی معاملوں کو جلدی نپٹانے کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کی تعداد بڑھانی ہوگی۔ ان عدالتوں کو دہلی کی عدالتوں میں التوا میں پڑے 10 ہزار سے زائد ایسے معاملوں کا نپٹارہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ جائے گا۔ ایک ریٹائرڈ ایڈیشنل سیشن جج پریم کمار کا کہنا ہے کہ بدفعلی کے ہر معاملے کی روز بروز سماعت ممکن نہیں ہے۔ اگر ملزم ایک سے زیادہ ہیں تو ان کے وکیل بھی زیادہ ہوں گے اور جنتا کی ناراضگی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سرکار بھی فاسٹ ٹریک عدالت یا خصوصی عدالت بنانے کی تسلی دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر بیٹھی ہے لیکن اگر حکومت ججوں کے منظور عہدوں کو بھرنے کے ٹھوس قدم اٹھائے تو وہ جلد اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرسکتی ہے۔ ججوں کی خالی جگہوں اور لمبے پڑے مقدموں کی تعداد دیش کے عدلیہ نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ نچلی عدالتوں میں ستمبر 2011 تک 2 کروڑ73 لاکھ مقدمے التوا میں تھے۔ ان میں سے 1 کروڑ95 لاکھ کرائم کے کیس تھے۔ دیش بھر میں ضلع عدالتوں میں ججوں کی18 ہزار 123 عہدے منظور ہیں لیکن اس وقت 14 ہزار 287 جج کام کررہے ہیں۔ یعنی 3836 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ضلع عدالتوں میں دو سطح پر جج مقرر کئے جاتے ہیں جوڈیشیل سروس، ہائر جوڈیشیل سروس ۔ جوڈیشیل سروس میں مجسٹریٹ اور سول جج کی بھرتی مقابلہ جاتی امتحانات کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ ایڈیشنل سیشن و ضلع جج ہائر جوڈیشیری کے ممبر ہوتے ہیں۔ ججوں کی بھاری کمی کے سبب عدالتیں مقدموں کے بوجھ سے بھری پڑی ہیں۔ اگر آبروریزی کے معاملوں میں ہمیں ٹھوس فاسٹ ٹریک انصاف دینا ہے تو پہلے موجودہ کمیوں کو پورا کرنا ہوگا تبھی ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ صرف اعلان سے کام نہیں ہونے والا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟