سپاہی سبھاش تومر کی موت لوگوں کی پٹائی سے یا ہارٹ اٹیک سے ؟

پچھلے دو دنوں سے ایک نیا تنازعہ چھڑا ہوا ہے۔ دہلی پولیس کے بدقسمت کانسٹیبل سبھاش چندر تومر کی موت کیسے ہوئی؟ قابل ذکر ہے کہ ایتوار کو اجتماعی بدفعلی کے معاملے کے خلاف جاری مظاہرے کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں زخمی ہوئے سبھاش تومر نے منگلوار کی صبح ہسپتال میں دم توڑدیا۔ پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد اس کا پورے سنمان کے ساتھ انتم سنسکار کیا گیا۔ کانسٹیبل سبھاش چندر تومر کی موت بھیڑ کی پٹائی سے ہوئی یا دھوئیں یا لاٹھی چارج سے یا بھگدڑ سے لگے صدمے سے؟ دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار فرماتے ہیں کہ چھاتی اور گردن میں چوٹ کے نشان پائے گئے۔ وہ ایتوار کو انڈیا گیٹ پر بھیڑ کار شکارہوئے۔ دوسری طرف رام منوہر لوہیا ہسپتال جہاں سپاہی کی موت ہوئی وہاں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ٹی ۔ ایس سدھو کہتے ہیں کہ صدمے سے سپاہی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ جسم پر کوئی سنگین چوٹ کے نشان نہیں تھے۔
اس درمیان 47 سالہ سپاہی تومر کی پوسٹ مارٹم کے بعد آئی رپورٹ میں ان کی موت کی ایک وجہ نہیں بتائی گئی۔ رام منوہر لوہیا ہسپتال کے ایم ایس کا کہنا ہے جب تومر کو لایا گیا تھا اس وقت وہ مرنے حال تھا اور ہمارے ڈاکٹر اسے ہوش میں لائے۔ کیونکہ اس کی حالت بہت خراب تھی اس لئے ہم نے اسے آئی سی یو میں شفٹ کردیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ان کی موت کسی چیز کے سینے اور گردن پر لگنے سے آئی چوٹوں کے سبب دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ڈاکٹر سدھو کے اس بیان کے برعکس ہے کچھ معمولی چوٹوں کے علاوہ تومر کو ئی بڑی چوٹ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی گہرے زخم تھے۔
ادھر تومر کے لڑکے ادتیہ کا کہنا ہے میرے والد کی موت انڈیا گیٹ پر مظاہروں کے دوران مچی بھگدڑ کے سبب ہوئی۔ مظاہرین نے انہیں دھکا دیا۔ انہیں کچل دیا۔ انہیں اندرونی چوٹیں آئیں، انہیں دل سے متعلق کوئی بیماری نہیں تھی۔ اس پورے واقعے میں ایک نیا موڑ تب آیا جب واردات کے دو چشم دید گواہوں نے دعوی کیا کہ تومر کو چوٹ نہیں تھی۔ جرنلزم کے طالبعلم و چشم دید گواہ جوگیندر نے دعوی کیا ’’میں اپنی ایک مہلا دوست کے ساتھ انڈیا گیٹ پر تھا جو زخمی ہوگئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ مظاہرین کے پیچھے ایک پولیس والا بھاگ رہا ہے اور وہ اچانک گر گیا، اس کے بعد قریب میں پڑی پی سی آر وین اسے ہسپتال لے گئی۔ میں بھی اسی گاڑی میں گیا تھا، میں نے اسے ہسپتال میں دیکھا اور اس کے جسم پر چوٹ کا کوئی نشان نہیں تھا، وہ بھیڑ کے ذریعے کچلا نہیں گیا اور نہ ہی اسے کوئی چوٹ آئی تھی۔‘ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کونسی بات اور واردات کو سچ مانا جائے؟ حالانکہ اس سے جانے والے کو فرق نہیں پڑے گا وجہ کوئی بھی رہی ہو وہ اپنی ڈیوٹی پر شہید ہوا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟