نریندر مودی کی چوتھی پاری شروع

گجرات میں تیسری بار جیت کا پرچم لہرا کر بدھ کے روز نریندر مودی کھچا کھچ بھرے احمد آباد کے سردار پٹیل اسٹیڈیم میں پھر سے وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لینے پہنچے تو پوری بھاجپا ہی نہیں بلکہ پورا این ڈی اے بھی ان کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ حلف لینے سے پہلے نرمی سے انہوں نے مختلف مذاہب کے پیشواؤں ،مولوی، مہاتما و عیسائی پادریوں سے آشیرواد لیا اور اپنی ماں ہیرا بین کے پاؤں چھوئے۔ حلفب برداری تقریب میں یوں تو لیڈروں کا آنا ایک خانہ پوری ہوتی ہے لیکن مودی کے اس گرانڈ شو کے سیاسی مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔ ایک دو لیڈروں کو چھوڑدیا جائے تو بھاجپا کے سبھی سرکردہ لیڈروں کے ساتھ دوسری لائن کے لیڈر وہاں موجود تھے۔ وہیں این ڈی اے میں جنتا دل (یو ) کو چھوڑ کر دوسرے ساتھی ہی نہیں بلکہ پرانے اتحادی بھی ایک ساتھ نظر آئے۔ تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا ،انڈین نیشنل لوک دل کے صدر اوم پرکاش چوٹالہ کی موجودگی کو بھی خاص دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ قابل غور ہے کہ ہریانہ میں بھاجپا نے مفاد عامہ کی خاطر کانگریس کا ہاتھ تھاما ہے۔ پھر بھی چوٹالہ مودی کا جوش بڑھانے پہنچے تھے۔ اتنا ہی نہیں ساتھی پارٹی شیو سینا چیف اودھو ٹھاکرے آئے تو تقریب میں ایم این ایس چیف راج ٹھاکرے بھی موجود تھے۔ بھاجپا کے سارے وزرائے اعلی موجود تھے۔ 
بھاجپا سے لال کرشن اڈوانی، پارٹی صدر نتن گڈکری، سشما سوراج، ارون جیٹلی، راجناتھ سنگھ سمیت شاہنواز حسین، مختار عباس نقوی وغیرہ وغیرہ سبھی موجود تھے۔ سیاسی پارٹیوں کا یہ مجموعہ اس لئے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پچھلے دنوں مودی کے وزیر اعظم امیدواری کی دعویداری کی بات اٹھتی رہی ہے۔ عام طور پر مودی کی ساکھ کٹر ہندوتو نیتا کی رہی ہے۔ ایسے میں کسی مسلم دانشور سے مودی کی تعریف ہو، کوئی نئی بات ضرور ہے۔ دارالعلوم دیو بند کی مجلس شورہ کے ممبر اور سابق مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی نے کہا کہ گجرات میں مسلم حمایت کے سبب بھاجپا کو 20 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ گجرات کے سورت میں پیدا اور دینی جدید تعلیمی ادارے چلانے والے 61 سالہ دیو بندی عالم غلام محمد وستانوی نے کہا کہ نریندر مودی کی جیت سے گجرات کے مسلمانوں میں کوئی عدم سلامتی کا احساس نہیں ہے۔ گجرات کے مسلمان پچھلے10 سالوں سے سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں اور اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ایک دہائی کے دوران گجرات فساد سے پاک رہا۔ اس دوران مسلمانوں کی حق تلفی نہیں ہوئی، اس کا سہرہ وزیر اعلی نریندر مودی کو جاتا ہے۔ مودی کو وزیر اعظم کی شکل میں پروجیکٹ کئے جانے کے سوال کوانہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ ابھی اس کا جواب دینے کا وقت نہیں آیا۔ بھاجپامیں اس عہدے کے لئے بڑے نیتاؤں کی طویل فہرست ہے۔ ہم مسٹر مودی کو گجرات کا تیسری بار وزیر اعلی بننے پر مبارکباددیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس جیت سے مغرور نہیں ہوں گے اور عوام کی سبھی طرح کی سیوا کرتے رہیں گے اور ترقی کا راستہ آگے بڑھاتے رہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

  1. حالیہ انتخابی نتائج اور ان کےا ثرات
    حمزہ فضل اصلاحی
    ۲۰۱۴ء عام انتخابات میں ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ باقی ہے۔ ایسے میں گجرات میں بی جے پی اور ہماچل پردیش میں کانگریس کی فتح  کے دورس اثرات ہوں گے ۔ دونوں ریاستوں کے  انتخابی نتائج سے پہلے حسب معمول قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا۔ نتائج کا بےصبری سے انتظار کیاجا رہا تھا۔ میڈیا میں بھی اس کو خاصی اہمیت دی جارہی تھی ۔ اس کےدو بڑے اسبا ب ہیں ۔ ایک تو یہ ملک کی دوبڑی جماعتوں  میں مقابلہ تھا۔ دوسرے گزشتہ کچھ دنوں سے گجرات کے وزیر اعلیٰ  نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے تعلق سے زور وشور سے بحث جاری تھی ۔
    دونوں ریاست کے نتائج کا اثر کانگریس اور بی جے پر توہو گاہی اس سے ملکی سیاست بھی محفوظ نہیں  رہے گی۔مودی کی فتح سے بی جے پی میں وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے والوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ ہوسکتاہے کہ کوئی نیا دعویدار سامنے آئے اور بغیر انار کے سو بیماروں کی تعداد میں  اضافہ کرے ۔ پارٹی کا داخلی انتشار بھی مزید بڑھ سکتاہے ۔
    ہیٹ ٹر ک کے بعد مودی نے اپنے انداز بیاں اور زبان کے انتخاب سے واضح اشارہ دے دیا کہ وہ وزیر اعظم بننے کیلئے بے چین ہیں اور قومی سیا ست کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔ اس موضوع پرمیڈیا کے زور دار مباحثے نے مودی کے ارمانوں کے چراغ کو تیل فراہم کردیا۔اس سے کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو ۲۰۱۴ء کیلئے یوپی اے کی راہ آسان ہوجائے گی اوراسے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بہت زیادہ تگ ودو کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔کیونکہ چند نام نہاد صحافیوں کے سوا پورے ملک کے مسلمان مودی سے خفا ہیں ۔ وہ کسی صورت میں مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں راہل سرگرم بھی ہوگئے ہیں اور ان کا گجرات انتخابات کے نتائج کے دودن بعد۳۔ ۳؍ مہینے کے وقفے سے مسلم تنظیموںساتھ میٹنگ کے اعلان کا واحد مقصد مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنا ہی  ہے۔
    کانگریس نے ہماچل پردیش میں فتح ضرور حاصل کرلی ہے تاہم ۲۰۱۴ء تک ہماچل پردیش میں اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنا کانگریس کیلئے سب سے بڑی آزمائش ہے ۔کیونکہ سیاسی ماہرین کے مطابق یہ ریاست گرگٹ کی رنگ بدلتی ہے۔ یہاں کے عوام کب کسے اپنالیں اور کسے ٹھکرا دیں؟  کچھ کہا نہیں  جاسکتا۔اس لئے کا نگریس کی اس فتح کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ۔خبروں میں بھی ہماچل پردیش کا ذکر ذیلی اور ضمنی طور پرکیا گیا۔ سب کی نگاہیں گجرات کےانتخابی نتائج پر تھیں ۔
    یاد کیجئے گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس کی بی جے پی سے صر ف ۴؍ سیٹیں کم تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو اسمبلی انتخابات میںصرف دو سیٹوں  میں اضافہ کانگریس کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج کے پیش نظر اندازہ لگایا جارہاتھا کہ ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات میں  کانگریس تھوڑی سی محنت کرکے کامیابی حاصل کرسکتی ہے لیکن کانگریس نے ایسا نہیں کیا اور اسمبلی انتخابات سے ذرا پہلے اس کی نیند ٹوٹی۔اس نے گزشتہ عام اور ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران اپنا کوئی ایسا بااثر لیڈر تیار نہیں کیا ۔ جسے گجرات کے عوام قبول کرتے اور حسب معمول انتخابی مہم میں  جادوئی چھڑی کے طور پر راہل گاندھی کو استعمال کیا گیا ۔ اس کے مقابلے میں مودی نے سدبھا ؤنا کیا اور جدید ذرائع سے اپنے لئے زمین ہموار کی ۔
    اسی طرح یوپی اسمبلی انتخابات میں بھی کا نگریس کو عام کے مقابلے اسمبلی انتخابات میں کم سیٹیں حاصل ہوئیں۔ یہاں بھی کانگریس کے پاس دگوجے کی فقرےبازیوںاور سلمان خورشید کے خوشنما وعدوں  کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
    ٍ گزشتہ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابا ت کے نتائج سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ علاقائی پارٹیوں اور علاقائی لیڈروںکا زور بڑھتا جارہا ہے۔ ا س پہلو کو ذہن میں رکھ کر کانگریس کو عام انتخابات کی تیار کرنی چاہئے ۔
    تیسرا محاذ بھی کانگریس کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ا ن نتائج کے بعدتیسرے محاذ کے بھی امکانات بڑھ گئےہیں ۔ ملائم ، ممتا اور تیسرے محاذ کے حامی دیگر لیڈروں کے بھی حوصلے بلند ہیں لیکن ابھی وہ اس کا اظہاردبی زبان میں کر رہے ہیں۔ دونوں  ریاستوں میں بی جے پی کو کامیابی ملی ہوتی تو شاید تیسرے محاذ کے حامی کھل کر سامنے آگئے ہوتے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟