شندے کی سنئے! سونیا و منموہن کو قصاب کی پھانسی کا پتہ ٹی وی سے چلا؟

اجمل عامر قصاب کو یوں چپ چاپ طریقے سے پھانسی پر لٹکانا کیا ایک سیاسی فیصلہ تھا؟ پھانسی کو لیکر سیاست کا تیز ہونا فطری ہی ہے۔ بھارت کے اندر اور باہر دونوں ہی مقامات پر سیاست جاری ہے۔ اجمل قصاب کی پھانسی پر بھارت اور پاکستان کے درمیان نیا ڈپلومیٹک دنگل چھڑ گیا ہے۔ بھارت کے مطابق پاکستان نے قصاب کی پھانسی سے پہلے بھیجی گئی غیررسمی اطلاع لینے سے بھی انکارکردیا۔ اس کے بعد پاکستان نے قصاب کی لاش کو بھی لینے سے منع کرنے کے بارے میں کوئی خبر بھارت تک کو نہیں دی۔ حالانکہ اب پاکستانی خیمہ حکومت ہند کے ان دعوؤں سے انکارکررہا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں موجود ممبئی حملے کے سازشیوں کے خلاف کارروائی کے لئے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ادھر دیش کے اندر بھی پھانسی کو لیکر سیاسی چالیں چلی جارہی ہیں۔ مرکز اور ریاستی سرکاروں نے پچھلے چار برسوں میں 29.5 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ ان میں آرتھر روڈ جیل میں اس کے کھانے پینے اور سکیورٹی و دوائیوں اور کپڑوں پر بھی پیسہ شامل ہے۔ وہیں قصاب کو پھانسی چڑھانے والے جلاد کو 5 ہزار روپے دئے گئے۔ سکیورٹی پر 30 کروڑ اور پھانسی پر صرف5 ہزار روپے۔ جنتا سوال کررہی ہے کیا 30 کروڑ روپے کے خرچ کو کم کیا جاسکتا تھا؟ اگر جلد پھانسی دے دی جاتی تو یہ بچ سکتا تھا۔ہمیں حیرانی سب سے زیادہ ہوئی جب وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے یہ کہہ دیا کہ قصاب کو پھانسی دئے جانے کے بارے میں وزیر اعظم منموہن سنگھ ،کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بھی نہیں پتہ تھا۔ انہیں ٹی وی دیکھنے سے ہی پتہ چلا قصاب کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ سوال ہے کہ آپ پاکستان کو تو پہلے سے پھانسی کے بارے میں بتا رہے ہیں اور دیش کے وزیر اعظم کو نہیں بتا رہے؟ یہ ماننا آسان نہیں ہے کہ وزیر اعظم کو پتہ ہی نہیں تھا۔ کچھ بھول چوک ہوجاتی تو ذمہ داری دیش کے سربراہ یعنی وزیر اعظم پر عائد ہوتی۔ انہیں پتہ نہیں تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف وزیر اعظم کو معلوم ہی تھا بلکہ آپریشن 'X' براہ راست وزیر اعظم کی نگرانی میں ہی ہوا۔ آپریشن کے بارے میں سینئر وزرا اور حکام تک کو بھی بھنک نہیں لگی یہ تو ٹھیک ہے ۔ محض وزیر اعظم ہی نہیں وزیر دفاع اے کے انٹونی کو بھی پوری معلومات تھی۔ وزیر داخلہ کیے روم سے انٹر پول کی کانفرنس سے لوٹنے کے بعد ہی طے ہوگیا تھا کہ جلد ہی قصاب کو خفیہ طریقے سے سپریم کورٹ کے ذریعے برقرار رکھی گئی پھانسی کی سزا دے دی جائے۔صدر پرنب مکھرجی نے جس تیزی سے قصاب کی رحم کی عرضی کو مسترد کیا وہ بھی کافی اہم تھا۔ صدر محترم نے محض13 دنوں میں ہی اتنا اہم فیصلہ لے لیا۔ اس سے پہلے اس وقت کے صدر شنکر دیال شرما نے تو7 دنوں میں ہی رحم کی اپیل پر فیصلہ سنا دیا تھا۔ بھارت میں یہ دوسرا ایسا معاملہ ہے جس میں رحم کی عرضی اتنی تیزی سے نپٹائی گئی ہو اور وزیر داخلہ یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ سب وزیر اعظم اور کانگریس صدر کو مطلع کئے بنا ہوا ہے؟ قصاب کو پھانسی سے دیش نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے لیکن اس کا وقت کئی معنوں میں ٹھیک رہا۔ پھانسی کے خلاف اقوام متحدہ میں ریزولیوشن پاس ہونے کے ایک دن بعد ہی قصاب کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن ہمارے نظام کو تو یہ کافی پہلے ہی معلوم تھا کہ اقوام متحدہ میں 19-20 نومبر کو کا ریزولیوشن پاس ہونے والا ہے۔ وقت کے مسئلے پر پارلیمنٹ اجلاس سے ایک دن پہلے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ سرکار کے بڑھتے عدم استحکام اور دیش میں کانگریس کے لئے موجودہ ماحول اور الگ تھلگ پڑے ہندو ووٹ بینک خاص کر نوجوان طبقہ اور پھر گجرات اسمبلی چناؤ ۔اگر ہم اس واقعے کو دیکھیں تو ہمیں یقیناًلگتا ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی زیادہ تھا اور سبھی جانتے ہیں دیش میں کانگریس صدر سونیا گاندھی،راہل گاندھی کی منظوری کے بغیر پتتا تک نہیں ہلتا ۔ یہ تو بہت ہی بڑا فیصلہ تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟