نریندرمودی نے تھری ڈی استعمالسے ایک ساتھ چار شہروں کو خطاب کیا

گجرات اسمبلی چناؤ ہونے جارہا ہے پولنگ13 اور 17 سمبر کو ہونی ہے۔ چناؤ بیشک گجرات کا ہے لیکن اس چناؤ پر سارے دیش کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں لیکن دیش کے مستقبل کی سیاست کی سمت کو طے کرسکتی ہے۔ گجرات میں بھاجپا کا اہم مقابلہ کانگریس سے ہے۔ گجرات کے مقبول ترین وزیر اعلی نریندر مودی کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر وہ یہاں سے کامیاب ہوتے ہیں اور اچھے مارجن سے جیتتے ہیں تو نہ صرف بھاجپا کو نئی طاقت ملے گی بلکہ ممکن ہے نریندر مودی مرکزی منظر پر آجائیں اور 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کے وزیر اعظم کے امیدوار بن جائیں۔ اس نکتہ نظر سے یہ چناؤ نریندر مودی کے لئے جینے مرنے کا سوال بن چکے ہیں۔ نریندر مودی نے گجرات اسمبلی چناؤ2012 ء کی چناؤ مہم کو ایک نیا ٹرینڈ دے دیا ہے۔ بھاجپا کے پوسٹر بائے نریندر مودی ایتوار کو تھری ڈی کے اوتار میں نظر آئے۔ دراصل مودی نے اس تکنیک کی مدد سے احمد آباد، سورت، راجکوٹ اور بڑودہ میں ایک ساتھ چار چناوی ریلیوں کو خطاب کیا ۔اس میں مودی کا پہلے سے ریکارڈنگ پیغام بھی دکھایا گیا۔ ہائی ٹیک ٹکنالوجی کی مدد سے ایسا احساس ہورہا تھا کہ مانو مودی خود چاروں مقامات پر موجود ہیں اور خود اسٹیج سے خطاب کررہے ہیں۔ تھری ڈی کے ذریعے چناؤ مہم کا یہ طریقہ دیش کے لئے بالکل نیا ہے۔ دنیا میں صرف دو موقعوں پر پہلی بار پرنس چارلی کے ذریعے اور دوسری بار امریکی چناؤ میں الگور کے ذریعے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ دیش کی سیاست میں اسے لانے کا سہرہ یقینی طور سے نریندر مودی کو جائے گا۔ آخر کیا ہے تھری ڈی اسٹیج؟ کس طرح کام کرتا ہے، کیسے اس کے ذریعے ایک ساتھ چار پانچ ریلیاں کی جاسکتی ہیں؟ الفاظ میں بتانا مشکل ہے لیکن موٹے طور پر پروجیکٹر سے مودی کے فوٹو سرفیس سے ٹکراٹی ہے جو اسٹیج پر 45 ڈگری اینگل پر دکھائی پڑتی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ خاص چشمے کے بغیر تھری ڈی ای فیکٹر کو نہیں دیکھا جاسکتا لیکن ہولوگرافک فائل کی مدد سے بغیر چشمے کے یہ ممکن ہوا ہے۔ اسٹیج پر پلاسٹک سیٹ کی طرح شفاف اسکرین لگائی جاتی ہے جس پر ریلیکٹو سرفیس سے امیج بنتی ہے۔ پہلے تھری ڈی اسٹیج سے نریندر مودی نے کہا کہ گجرات کی 6 کروڑ عوام رام ہے اور میں ان کا وانر۔ مجھے موقعہ ملا ہے کہ میں ہنومان کی طرح ان کی سیوا کروں۔ موصولہ اشاروں اور سروے سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ نریندر مودی کی کامیابی یقینی لگتی ہے۔ اب اگر مودی 120 سے زیادہ سیٹیں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو قومی سطح پر 2014ء کی لڑائی مودی بنام راہل ہوجائے گی۔ اگر 110 سے کم سیٹیں آتی ہیں تو مودی کو بھاجپا کے اندر سے چنوتی مل سکتی ہے۔ ان کے گجرات ڈولپمنٹ ماڈل پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ اس صورت میں کیا اگلی لڑائی مودی بنام راہل کی شکل لے گی؟ ہاں اگر100 سے105 سیٹوں تک بھاجپا سمٹ جاتی ہے تو اس کے مودی کے لئے منفی نتیجے سامنے آسکتے ہیں اور مودی کی شخصی پوزیشن دونوں ریاست اور مرکز میں کمزور ثابت ہوگی۔ لیکن ابھی وقت ہے چناؤ میں روزمرہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟