اسرائیل بنام حماس لڑائی خطرناک موڑ پر

مشرقی وسطیٰ میں غزہ پٹی اور اسرائیل میں پچھلے کئی دنوں سے لڑائی خطرناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ گذشتہ دنوں فلسطینیوں کٹر پنتھیوں نے یروشلم پر ایک راکٹ حملہ کیا۔ فلسطینی تنظیم حماس نے کہا اس راکٹ کا نشانہ اسرائیل پارلیمنٹ تھا۔ پچھلی کئی دہائی میں پہلی بار ہے کہ یروشلم کو نشانہ بنایا گیا ہے اور غزہ پٹی سے اس طرح کا یہ پہلا حملہ تھا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پانچویں دن غزہ علاقے میں زمین اور سمندر سے مزائل حملے کئے۔ اس میں چار بچوں سمیت18 لوگوں کی موت ہوگئی ہے۔ اب تک اسرائیلی حملوں میں 100 سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔ یہ حملے جاری ہیں اسرائیلی وزیر داخلہ ایلم مشائی نے کہا کہ تبھی ہم 40 سال تک پر امن رہے ۔ اسرائیل کے ہوائی حملوں میں میڈیا کے دفتروں کی عمارتیں بھی زد میں آگئیں ہیں اور8 فلسطینی صحافی بھی زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ میں حماس کی جانب سے کئے گئے دو راکٹ حملوں کو اسرائیل کی میزائل روک سسٹم نے ناکام کردیا۔ اسرائیلی حملے میں حماس کے کمانڈر کے مارے جانے کے بعد سے اسرائیل اور حماس میں لڑائی تیز ہوگئی ہے۔ سرحد پر اسرائیلی فوج کی بڑی موجودگی دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے زمینی حملے کے بھی امکانات بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ برطانیہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو بین الاقوامی حمایت بند ہوسکتی ہے۔ مصر نے بھی اس کے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔ وہیں امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے کہا کہ وہ بیچ بچاؤ کرانے کے اسرائیل کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ ایتوار کا دن پچھلے ہفتے شروع ہوئی اس لڑائی کے بعد سے زیادہ خطرناک دن رہا۔ یہ حملے حماس کے کمانڈر کو نشانہ بنا کر کئے گئے تھے لیکن اس میں کمانڈر کے ساتھ ساتھ دو بچوں کی بھی جان چلی گئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حملے اور تیز کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اس درمیان حماس کے کٹر پنتھی بھی جوابی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب راکٹوں سے کئی حملے کئے ہیں۔ سبھی طرف سے جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا ایک نمائندہ اس بارے میں بات چیت کرنے کے لئے قاہرہ گیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکمون بھی قاہرہ پہنچنے والے ہیں جبکہ عرب لیگ کا ایک نمائندہ وقت غزہ پٹی کا دورہ کرنے والا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے حماس اور اسرائیل کی طرف سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور دونوں ہی یہ مان رہے ہیں کہ فرق بس اتنا ہے کہ اسرائیل ڈیفنس فورس اسے دہشت گردی ٹھکانوں پر کیا گیا حملہ مانتی ہے اور حماس سمیت عرب دنیا اسے تمام کٹر پسند تنظیم غزہ کے بے قصور لوگوں کے خلاف حملہ مان رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی جانب سے اپنائی جارہی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا شاید غلط ہوگا کہ اس صورتحال کے لئے کوئی ایک قصوروار ہے۔ موصولہ اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ سارا معاملہ حماس کے ذریعے یروشلم پر راکٹ داغنے سے شروع ہوا اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کے لئے اسرائیل نے جوابی کارروائی کی ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لڑائی رکنی چاہئے۔ اگر نہیں رکی تو یہ خطرناک شکل اختیارکرلے گی۔ ورنہ اگر اسی طرح کی لڑائی چلتی رہی تو یہ قابو سے باہر ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟