کیا اس اجلاس میں یوپی اے ایف ڈی آئی تجویز پاس کرا پائے گی؟

22 نومبر سے پارلیمنٹ کا سرماہی اجلاس شروع ہونے جارہا ہے یہ کئی معنوں میں بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ منموہن سنگھ سرکار کے لئے یہ اگنی پریکشا بھی ہوگا۔ حکومت نے صاف اشارے دئے ہیں کہ وہ خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی تجویز پاس کرانا چاہ رہی ہے اس مسئلے پر اپوزیشن متحدہورہی ہے۔ پچھلے دو مہینے سے اپوزیشن پارٹیاں اپنی مخالفت ظاہر کرتی آرہی ہیں۔ بھاجپا لیفٹ پارٹیاں ترنمول کانگریس کے ممبران نے ووٹنگ قواعد کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایف ڈی آئی کے اشو پر بحث کرانے کے لئے نوٹس دئے ہیں۔ اگرلوک سبھا اسپیکر یا راجیہ سبھا کے چیئرمین منظور کرلیتے ہیں تو حکومت کی اگنی پریکشا کافی سخت ہوسکتی ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں آپسی اختلافات کے باوجود اس مسئلے پر ایوان میں سرکار کی خبر لینے کے لئے ایک نظر آرہی ہیں۔ وہیں سرکار کو باہر سے حمایت دے رہی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈی ایم کے جیسی یوپی اے کی اتحادی پارٹی نے بھی ایف ڈی آئی پر اپنے پتے کھول کر کانگریس کے لئے مصیبتیں بڑھا دی ہیں۔ ترنمول کانگریس تو اسی مسئلے پر یوپی اے سرکار سے علیحدہ ہوچکی ہے۔ اب بدلے ہوئے کردار میں اس نے سرکار کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اسی کے تحت اس پارٹی کے ایم پی شتابدی رائے نے قاعدہ 184 کے تحت ایف ڈی آئی کے اشو پر لوک سبھا میں بحث کرانے پر بدھوار کو نوٹس دے دیا ہے۔ بھاجپا، جنتا دل (یو) اور سی پی ایم کے ممبران نے بھی اسی طرح کا نوٹس راجیہ سبھا اور لوک سبھا سیکریٹریٹ کو دئے ہیں۔ سی پی ایم کے نیتا یوپی اے کی اتحادی پارٹیوں کے لیڈروں کو یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ایف ڈی آئی کے خلاف ریزولوشن پاس ہونے سے سرکار نہیں گرے گی۔ بس ان کی سیاسی فضیحت ہوگی۔ ایسے میں وہ لوگ سرکار کو ضروری سبق پڑھانے کے لئے اس پہل کی آرام سے بلا شبہ حمایت کرسکتے ہیں۔ کانگریس کے حکمت عملی ساز اپوزیشن کی گھیرا بندی کو سمجھ رہے ہیں اور جوابی حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس کام کا خود بیڑا اٹھایا ہے۔ منموہن سنگھ نے سپا ،بسپا اور نیشنل کانفرنس جیسی اتحادی پارٹیوں کے لیڈروں کو الگ الگ سے اسی مقصد سے ڈنر دیا تھا۔ منموہن سنگھ نے پچھلے ہفتے سپا چیف ملائم سنگھ اور ان کے بیٹے وزیر اعلی اکھلیش یادو کو رات کے کھانے پر بلایا۔ اس کے بعد ایتوار کو بسپا چیف مایاوتی کو دن میں بلایا۔ پارلیمنٹ میں ایف ڈی آئی مسئلے پر اپوزیشن کی جانب سے کراس ووٹنگ کی سہولت والے قاعدوں کے تحت چلیں یا عدم اعتماد کی تجویز لائے جانے کو لے کر اندیشے میں مبتلا وزیر اعظم اتحادی پارٹیوں اور سرکار کو باہر سے حمایت دے رہی پارٹیوں سے تال میل بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ہی نہیں وزیر اعظم نے تو اسی مہینے کی 22 تاریخ کو اجلاس میں ماحول ٹھیک رکھنے کے لئے بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کے سینئر لیڈروں کو بھی ڈنر کے لئے مدعو کیا ہے۔ اس ڈنر کے لئے شری لال کرشن اڈوانی، سشما سوراج اور ارون جیٹلی کو بلایا گیا ہے۔ مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کا دعوی ہے کہ تمام سیاسی چیلنجوں کو کامیابی سے ہم جھیل چکے ہیں۔ ایسے میں ایف ڈی آئی کے مسئلے پر بھی سرکار اپوزیشن کی چنوتیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ ضرورت پڑنے پر دکھا دیا جائے گا کہ اکثریت کا نمبر اس مسئلے پر بھی اسی کے ساتھ ہے۔ لوک سبھا میں 545 ممبران میں ڈی ایم کے سمیت265 ممبران کی یوپی اے کو حمایت حاصل ہے۔ اگر 22 ممبران والی سماجوادی پارٹی اور 21 ممبران والی بی ایس پی کی حمایت اسے مل جاتی ہے تو اس ایوان میں اس کے حمایتی ممبران کی تعداد 300 کو پار کرجائے گی۔ لوک سبھا میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے 273 ممبران کی حمایت چاہئے۔ کانگریسی لیڈر بڑھ چڑھ کر دعوی کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ اپوزیشن کی کوششوں نے یوپی اے سرکار کے سامنے ایک پہاڑ جیسی پریشانی کھڑی کردی ہے۔ یہ اجلاس یوپی اے سرکار کے لئے اگنی پریکشا ثابت ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟