قصاب کو پھانسی:بھارت نے دنیا کو دیاپیغام ہم سافٹ اسٹیٹ نہیں


چار سال پہلے ممبئی کی گلیوں کو 165 بے گناہوں کے خون سے رنگنے والے پاکستانی دہشت گرد اجمل عامر قصاب کو بدھوار کے روز یرودا جیل میں چپ چاپ طریقے سے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ اسے صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دی گئی۔یہ بھی اتفاق رہا قصاب اور اس کے 9 دہشت گرد ساتھیوں نے قتل عام کے لئے بدھوار کا ہی دن چنا تھا۔ یہ ہی دن قصاب کے لئے زندگی کی آخری صبح لیکر آیا۔ ’سی7096‘ نام کے اس بیحد خونی مجرم اجمل عامر قصاب کی لاش کو جیل میں ہی دفن کیا گیا کیونکہ اس کے آقاؤں نے اس کی لاش لینے سے انکارکردیا تھا۔’ آپریشن X‘ نام کے اس آپریشن کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ بھارت سرکار نے جس چپ چاپ ڈھنگ سے لیکن تیزی کے ساتھ اس آپریشن X کو انجام دیا وہ لائق تحسین ہے۔ یہ کام ضروری ہی نہیں تھا بلکہ بہت ہی اہم تھا۔ قصاب محض ایک آتنکی نہیں تھا وہ ایک آتنک کی علامت بھی بن گیا تھا۔ قصاب کو پھانسی دینے کا فیصلہ دیر آید درست آید کی کہاوت کو ثابت کرتا ہے کہ سرکاریں ٹھان لیں تو مشکل نظرآنے والے کام بھی کہیں زیادہ آسان بنائے جاسکتے ہیں۔ بھارت کے ضمیرکو جھنجھوڑ دینے والی 26 نومبر2008 کی خوفناک آتنکی حملے کی واردات کے قصوروار قصاب کو پھانسی پرلٹکا دئے جانے کے بعد یہ کہا جاسکتا کہ ممبئی کی زمین پر ہوئے گناہ کو انصاف مل گیا ہے۔ قصاب کو پھانسی پر لٹکانے کی حکمت عملی نے سرکار نے یقینی طور پر کئی حساب کتاب کا خیال رکھا۔ سب سے پہلے تو سرکار کی کوشش اپنی ختم ہوتی ساکھ کو پھر سے بحال کرنے کی تھی۔ دوسرے26 نومبر کے گناہگارکو سزا دینے کے لحاظ سے ماہ نومبر کی اپنی اہمیت تھی۔ ان سب نفع نقصان سے زیادہ اہمیت اس پیغام کی ہے جو نئی دہلی نے پوری دنیا کو دیا ہے اور یہ سندیش ہے کہ وہ دیش بھی اپنے ضمیر و عزت کو چوٹ پہنچانے والے آتنکی کو سزا دینے کی ہمت رکھتا ہے جسے عام طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ’سافٹ اسٹیٹ‘ مانا جاتا ہے۔ ویسے قصاب کے خاتمے میں عام بات جیسی کچھ نہیں ہے لیکن پچھلے برسوں میں بھارت میں سزا کا انتظار کررہے آتنکیوں کو سزا دینے کو لیکر جیسا لچر رویہ اپنایا جاتا رہا ہے اس لحاظ سے قصاب کی پھانسی پورے دیش کے لئے حیرت انگیز پر مبنی خوشی کی طرح ہے۔ اپنے اس ایک قدم سے حکومت نے خود پر لگ رہے دہشت گردی کے تئیں نرم رہنے کے الزام کو مسترد کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے دیش کے دشمنوں تک یہ سندیش بھی پہنچا ہوگا کہ وہ بھارت کو ’سافٹ اسٹیٹ‘ سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ دہشت گردی سے مقابلہ قوت ارادی سے کیا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوتا اس قوت ارادی کا مظاہرہ کرنے میں قباحت اور ہچکچاہٹ کا ویسا مظاہرہ کرنے سے بچا جاتا جیسا اب تک کیا جاتا رہا ہے۔جس کے سبب بھارت سرکار دنیا کی نظروں میں تو کمزور اقتدار کی شکل میں ابھری ہے۔ دیش واسیوں کے درمیان یہ ایک دبنگ کردار کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اب سارے دیش کی نظریں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے قصوروار افضل گورو پر ٹکی ہیں۔ بیشک اس لائن میں پنجاب کے وزیر اعلی بے انت سنگھ کے قاتل اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں پر بھی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں سب سے پہلے افضل گورو کو پھانسی پر لٹکایا جانا چاہئے۔ انہوں نے تو دیش پر حملہ کیا،دیش کی عزت کو ٹھیس پہنچائی۔ کسی غیر ملکی شخص کو نہیں اس لئے ان کا جرم زیادہ سنگین ہے۔ ممکن ہے کشمیر وادی میں اس کا تھوڑا بہت ردعمل سامنے آئے لیکن اس کو کنٹرول کرنے میں ہماری سکیورٹی فورس کافی ہے۔ ویسے بھی وادی میں بے چینی کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان سبھی کو پھانسی میں دیری ایک واحد وجہ اغراض پر مبنی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ مجرم کسی نرمی اور رحم کے قابل نہیں انہیں سزا دینے میں اس لئے دیری ہورہی ہے کیونکہ کچھ سیاسی پارٹیاں انہیں لیکر سیاست کرنے میں لگی ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہوگا کہ افضل گورو اور دیگر دہشت گردوں کو سزا دینے میں ویسے ہی ہمت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یا نہیں جیسا قصاب کے معاملے میں دکھایا گیا۔ اب قصاب کو سزا ملنے کے بعد بھارت کو اس کے آقاؤں تک پہنچنے کی پرزور کوشش کرنی چاہئے کیونکہ انہیں سبق سکھائے بغیر ممبئی حملے کے متاثرین کو انصاف ادھورا ہی رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ وقت چوکس رہنے کا بھی ہے ممکن ہے قصاب کے خاتمے کے بعد بدلا لینے کے مقصد سے پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے بھارت میں کسی واردات کو انجام دینے کی کوشش ہو۔ ضروری تو یہ ہے کہ چوکسی برتتے ہوئے قصاب سے شروع ہوا انصاف کا سلسلہ افضل گورو اور دیگر کی موت کی سزا پاچکے خطرناک آتنک وادیوں تک بھی پہنچے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟