اترپردیش میں مسلسل بڑھتے عورتوں سے چھیڑ خانی اور بدفعلی کے واقعات

اترپردیش میں قانون و نظم کا سسٹم مسلسل بگڑ رہا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس اکھلیش یادو کی سرکار کی قانون و انتظام پر پکڑ ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ مانو دبنگوں کو دبنگی کرنے کا لائسنس مل گیا ہو۔ آئے دن اخبارات میں اترپردیش کسی نہ کسی گوشے میں پریشانی بڑھانے کی خبر آتی رہتی ہے۔ حال ہی میں خبر آئی سہارنپور کمشنری میں کمزور طبقے ہی طالبات اور عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ،بدفعلی اور تشدد کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں جس طرح ملالہ طالبانی تشدد کا شکار ہوئی ہے، ٹھیک اسی طرح شہر میں طالبات کو پریشانی جھیلنی پڑ رہی ہے۔ ان کے رشتے دار انہیں اسکول جانے سے روک رہے ہیں۔
حکیم پورہ میں پانچ سال کی دلت طالبہ ٹینا (نام تبدیل) کے ساتھ پڑوسی لڑکے نے باتھ روم میں اس وقت بدفعلی کی جب وہ ٹی وی دیکھنے آئی تھی۔ اس سے پہلے بیہیٹ تھانے کے گاؤں گھروندی کی 28 سالہ مسلم عورت شیبہ (نام تبدیل) کو اغوا کر اجتماعی بدفعلی کی گئی، ملزم فرار ہیں۔ دودلی کی باشندہ معزور لڑکی مینو کی گردن کٹی لاش گنے کے کھیت سے برآمدہوئی ہے۔ اس کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ یکسرائے میں 11 سال کی دلت لڑکی مونیکا کو دو لڑکوں نے اغوا کرکے اس کو بے ہوش کیا اور اس کے ساتھ بدتمیزی کی۔ گنگو میں شام کو دوکان پر سامان لینے آئی 15 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ دو لڑکوں نے بدفعلی کی۔ 9 اگست کو دیوبند علاقے کے گاؤں بیہڑا میں 14 سال کی ویرا گپتا کی اجتماعی بدفعلی کرنے کے بعد اسے مار دیا گیا۔ ایسے بہت سے معاملے سامنے آئے ہیں۔ میں نے کچھ واردات کا حوالہ دیا ہے۔ یہ سبھی واقعات وزیر اعلی اکھلیش یادو کی سرکار بننے کے بعد رونما ہوئے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے اس سرکار میں ملزمان کے حوصلے کتنے بلند ہوئے ہیں۔
گذشتہ28 اکتوبر کو سہارنپور میں خواتین تشدد کے خلاف احتجاج میں ایک کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں سماجی تنظیموں سروکار، ناری سنسد، وومن اگینسٹ سیسول ہیرسمنٹ ایکشن انڈیا، گیان گنگا شکشا کمیٹی وغیرہ وغیرہ کے ورکروں نے عورت پر بڑھتے تشدد پر تشویش ظاہر کی ہے۔ مہیلا تشدد کا سب سے برا اثر یہ ہوا کہ کئی خاندانوں نے بیٹیوں کو اسکول تک جانے سے روکنا شروع کردیا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں پولیس نے کارروائی تو کی لیکن سرکار اور پولیس انتظامیہ کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو نے حال ہی میں ریاست کے قانون و انتظام کو بہتر بنانے میں کچھ افسروں اور میڈیا کے ایک طبقے کو توقع کے مطابق مدد نہ ملنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ان کی سرکار باقی مورچے پر بہتر تال میل قائم کرپا رہی ہے لیکن قانون و انتظام کا راج قائم کرنے کے معاملے پر ابھی کوئی کمی رہ گئی ہے۔ وزیر اعلی لکھنؤ میں عورتوں کے لئے ہیلپ لائن سیوا1090 شروعات کررہے تھے۔ انہوں نے کہا سب سے زیادہ الزام اترپردیش کے قانون و نظم کو لے کر لگ رہے ہیں۔ ہم تمام چیزوں پر تال میل کر پا رہے ہیں لیکن لا اینڈ آرڈر کے معاملے میں ایسا نہیں ہوپارہا ہے۔ پولیس میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن کہیں نہ کہیں کچھ کمی بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟