کیاراہل دلدل میں پھنسی کانگریس کو باہر نکال پائیں گے؟

کانگریس پارٹی میں راہل گاندھی کا 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں بڑا کردار ہوگا۔ یہ کانگریس تال میل کمیٹی کے حال میں تشکیل سے صاف ہوگیا ہے۔ کانگریس تال میل کمیٹی کا راہل کو چیئرمین بنایا گیا ہے اور ان کی ٹیم کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہائی پاور اس ٹیم کے دیگر ممبران سے پتہ چلتا ہے کہ اس کمیٹی کو ہی لوک سبھا کے چناؤ جیتانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ٹیم میں احمد پٹیل، جناردن دویدی و دگوجے سنگھ ایسے چہرے ہیں جس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ کمیٹی کو پارٹی صدر سونیا گاندھی کا پورا آشیرواد ہے۔
کمیٹی کی تشکیل سے یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ سونیا گاندھی کے بعد سب سے اہم شخصیت راہل گاندھی ہیں۔ یوں پارٹی میں ان کی اہمیت کو لیکر کوئی غلط فہمی نہیں رہی ہے لیکن رسمی طور پر ان کی سرگرمی پردے کے پیچھے اور نوجوان اور طلبا یونین میں زیادہ رہی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ راہل گاندھی کو تنظیم میں زیادہ بڑی ذمہ داری ملے گی۔ اب امیدوار کے انتخاب سے لیکر تمام چناؤ مہم چلانے کا ذمہ انہیں سونپ کر کانگریس نے اپنی پالیسی واضح کردی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا چہرے بدلنے سے کانگریس کا مستقبل روشن ہوجائے گا؟ راہل گاندھی کو چناؤ جیتانے کا ٹریک ریکارڈ بھی کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں رہا۔ بہار۔ اترپردیش میں ان کی رہنمائی میں پارٹی کا کیا حال ہوا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر منموہن سنگھ سرکار کی پالیسیاں نہیں بدلیں توشاید راہل بھی فیل ہوجائیں گے۔ آج پارٹی اور سرکار دونوں ہی عام آدمی سے کٹ چکے ہیں۔ لوگ کرپشن، مہنگائی ، بے روزگاری سے پریشان ہیں جب تک انہیں ان معاملوں میں راحت نہیں ملتی ہمیں نہیں لگتا کہ کانگریس کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ لیکن راہل کو آگے بڑھانے سے دو باتیں ان کے حق میں ضرور جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ نہرو گاندھی پریوار کی وجہ سے کانگریسیوں کی درپردہ وفاداری ان کے ساتھ ہوگی۔دوسری طرف 2009 ء کے چناؤ کے بعد جیسی امیدیں اور چناؤ مہم ان کے ساتھ جڑی تھی اب وہ نہیں ہوگی۔ 2009ء کے بعد وہ درمیانے طبقے کے ہیرو تھے تمام نوجوان ان میں اپنا لیڈر دیکھ رہے تھے۔ اب ایسا نہیں اس لئے کے وہ بغیر کسی بوجھ کے کام کرسکتے ہیں۔ اب انہیں توقعات کی چکا چوند نہیں گھیرے گی۔ راہل گاندھی کو سونپی گئی نئی ذمہ داری اور کانگریسی ورکر کے عام جذبے کو ہی عکاسی کرتی ہے لیکن یہ ان کی سب سے بڑی چنوتی اور آزمائش بھی ہوگی کیونکہ کانگریس اپنی تاریخ میں شاید اب تک کی سب سے مشکل چنوتی کا سامنا کرنے جارہی ہے۔ کیا راہل گاندھی کی لیڈرشپ اگلے عام چناؤ میں کھرا یا امیدوں کے مطابق ثابت ہوگی؟ جہاں تک پالیسیوں اور اشوز کا سوال ہے ابھی تک تو راہل گاندھی نے کوئی واضح اشارہ نہیں دئے ہیں و۔ وہ اپنی پسند یا سہولت سے کسی اشوز کو اٹھاتے ہیں اور پھر اسے بیچ میں ہی چھوڑدیتے ہیں۔ چناؤ میں راہل گاندھی پارٹی کو کتنی کامیابی دلا پائیں گے یہ تو بعد میں ہیں پتہ چلے گا۔لیکن انتخاباتی مہم کی باگ ڈور تھام کر وہ منموہن سنگھ سرکار کے کام کاج کی جوابدہی سے بچ نہیں سکتے۔ وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ساری دنیا ان کے گن گائے گی لیکن ہارتے ہیں تو شاید کانگریس کا نقشہ ہی بدل جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟