بالا صاحب کی وراثت کو کون بڑھائے گا آگے؟

بالا صاحب ٹھاکرے کے دیہانت کے بعد یہ سوال اٹھنا فطری ہی ہے کہ شیو سینا کا اب کیا ہوگا؟ سینا چیف کا عہدہ رہے گا یا ختم ہوگا یا کوئی دوسرا اعلان ہوگا ۔ جب بھی کوئی بڑا نیتا آتا ہے تو تنظیم میں تبدیلی ہوتی ہے۔ شیو سینا میں تو لیڈر شپ میں ایک طرح سے خلا پیدا ہوگیا ہے۔ بیٹا اودھو اس سطح کا نہ تو لیڈر ہے اور نہ ہی ورکروں میں والد جیسی پکڑ اور عزت ہے جبکہ بھتیجے راج ٹھاکرے نے الگ ہوکر مہاراشٹر نو نرمان سینا بنا کر اپنی پہچان الگ بنا لی اور کچھ حد تک وہ کامیاب بھی رہے لیکن اکیلے ان میں وہ دم نہیں جو بالا صاحب میں تھا۔
بالا صاحب کے جانے کے بعد شیو سینکوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ ایک شیو سینک کا کہنا تھا کہ بالا صاحب کے دیہانت کے بعد مراٹھی مانش خود کو بے سہارا اور یتیم غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ان حالات میں اب دونوں بھائیوں کو لوگوں کے مفاد میں متحد ہوکر ایک ساتھ آنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ شیو سینک تو چاہتے ہیں کہ اودھو اور راج ایک ساتھ مل کر بالا صاحب کی وراثت کو آگے بڑھائیں لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ بال ٹھاکرے نے کئی برس پہلے اپنا سیاسی جانشین طے کردیا تھا۔ وہ اپنے لڑکے اودھو ٹھاکرے کو شیو سینا کا کارگزار صدر بناگئے۔ اسی کے ساتھ پارٹی میں لیڈر شپ کو لیکر کسی جھگڑے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ البتہ پارٹی کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ بال ٹھاکرے کے بھتیجے راج ٹھاکرے شیو سینا سے الگ ہوگئے اور 2006 ء میں انہوں نے مہاراشٹر نو نرمان سینا نام سے ایک الگ پارٹی بنا لی۔ چھگن بھجبل اور نارائن رانے جیسے کئی مینڈیٹ والے لیڈر اس سے پہلے شیو سینا کو چھوڑ چکے تھے۔ تکلیف دہ پہلو تو یہ ہے کہ اودھو کے ہاتھ شیوسینا کی کمان تو آگئی لیکن سیاست میں وہ ابھی تک کوئی خاص مقام نہیں بنا سکے۔ بیشک وراثت میں انہیں ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ تو ملا لیکن ورکروں کا حوصلہ بڑھانے میں وہ اہل ثابت نہیں ہو پائے۔ مراٹھا مانش اور ممبئی والے اور ہندوتو کی ملی جلی پالیسی نے بالا صاحب ٹھاکرے کو ایک خاص طرح کی طاقت دی لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ بہت سے لوگ ان سے خوف کھاتے رہے۔ کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ اودھو میں اپنے والد جیسی نہ تو زبان ہے اور نہ ہو تیور ہیں جس کے سہارے وہ شیو سینا کی مشتعل انداز والی سیاست چلاتے رہیں۔ بہرحال ہمی راج ٹھاکرے میں بالا صاحب کی تھوڑی بہت خوبی نظر آرہی ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ شیو سینا کے بہت سے ورکروں کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔2009ء کے چناؤ نتیجے نے بھی شیو سینا کے ووٹ بینک میں لگی سیند کی تصدیق کی تھی۔ یہ تب ہوا جب شیو سینا کو راہ دکھانے اور اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے بالا صاحب ٹھاکرے موجود تھے۔ اب جب اس دنیا میں وہ نہیں ہیں تو شیو سینا کا مستقبل غیر یقینی سا لگ رہا ہے۔ دونوں بھائیوں میں اختلافات ہیں یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیو سینا کے مستقبل کے لئے کیا اودھو اور راج اپنے اختلاف بھلا کر بالا صاحب کی وراثت کو آگے چلا سکیں گے؟
  1. (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟