چین جھپٹ اب ایک منظم دھندہ بن گیا ہے

آج کل جرائم بھی ایک ہائی ٹیک بزنس ہوگیا ہے۔ دہلی این سی آر میں بائیکرس روزانہ درجنوں عورتوں سے چھینا جھپٹی کی واردات کو انجام دیتے ہیں۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ دہلی میں ہی ہورہی زیادہ تر واردات کے پیچھے مغربی یوپی کے بڑے گروہ کے ہاتھ ہیں جن کے نشانے پر زیادہ تر دہلی رہتی ہے۔ ان گروہ کی سالانہ مجمودی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ چھینا جھپٹی میں ہتیائے گئے زیورات سستے داموں میں یہ گروہ مغربی یوپی کے سوناروں سے گلوادیتے ہیں۔ اس سے سوناروں کا تو فائدہ ہوتا ہی ہے گروہ کو بھی بھاری بھرکم رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے دہلی این سی آر میں جب چھین جھپٹ ماروں کو پولیس پکڑتی ہے تو ان سے برآمدگی برائے نام ہوتی ہے۔ سرغنوں کے اشارے پر گروہ کے افراد الگ الگ علاقوں میں ریکی کرتے ہیں اور پھر ہاتھ لگے جھپٹ ماری کی واردات کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ گروہ کے ہاتھ روزانہ ہی درجنوں طلائی چین اور دیگر زیورات و پرس لگ جاتے ہیں۔ ان کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ جی ہاں جھپٹ ماروں کو باقاعدہ مہینے کی تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔جو اس کام میں مہارت حاصل کرلیتا ہے اس کی تنخواہ 80 ہزار روپے مہینہ ہوجاتا ہے۔ اس کا خلاصہ دہلی این سی آر میں جھپٹ ماری کی سنچری بنا چکے وجیندر نے اسوقت کیا جب وہ نوئیڈا میں واردات کے بعد بھاگتے ہوئے لوگوں کے شکنجے میں آگیا۔ اس نے پولیس کے سامنے جو انکشاف کیا ہے پولیس والوں کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ بے خوف ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر عورتیں ڈر اور اپنی عزت کی وجہ سے تھانوں کے چکر کاٹنے کی پریشانی سے بچنا چاہتی ہیں۔ پولیس کے ہاتھ آئے جھپٹ مار بجیندر کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتہ چلا پچھلے سال غازی آباد میں کپڑا تاجر سے 2 لاکھ کی لوٹ میں وہ بھی شامل تھا ۔بجیندر دو بار جیل جاچکا ہے۔ بابوگڑھ تھانے میں گروہ ایکٹ میں بند اس جھپٹ مار کے اقبال نامے پر پتہ چلا کہ گروہ میں بھرتی کسی بھی ممبر کے پکڑے جانے پر اس گروہ کے آقا اپنا جگاڑ لگا کر اس کو ضمانت پر چھڑا لیتے ہیں۔ بجیندر کو پولیس معمولی جھپٹ مار سمجھ بیٹھی تھی لیکن اس کے پشت پر تو کئی بڑے گروہ کا ہاتھ ہے۔ اس نے بتایا جھپٹ ماروں کی قد اورکاٹھی اورا ن کی پھرتی کو دیکھ کر تنخواہ طے کی جاتی ہے۔ فریشر کو ہر مہینے تقریباً30 ہزار روپے ملتے ہیں۔اس کے بعد جیسا جھپٹ ماری کا تجربہ بڑھتا اسی کے حساب سے تنخواہ بڑھتی جاتی ہے۔ جھپٹ ماروں کو تو 50 ہزار روپے تک کی ادائیگی گروہ کرتا ہے۔ اس کے مطابق لوٹی گئی ڈیڑھ سے دو تولے کی چین کی قیمت 50 سے80 ہزا رروپے کی ہوتی ہے۔ ایک دن میں دوچار چینیں اڑا لیں تو لاکھوں روپے کی انکم سرغنوں کو ہوتی ہے۔ گروہ کے افراد کو ایریا بانٹے گئے ہیں۔ ان کی ہر ہفتے کی شفٹ بدل دی جاتی ہے۔ مثلاً بائیک سوار دو جھپٹ مار ایک ہفتے غازی آباد علاقہ دیکھ رہے ہیں تو وہ اگلے ہفتے مشرقی دہلی یا ساؤتھ دہلی بھیج دئے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ دوسرے ممبر کو شفٹ مل جاتی ہے۔ گروہ میں فریشر سمیت تقریباً30 ممبر ہیں ان کے مطابق گروہ میں شامل زیادہ تر ممبر مشرقی دہلی، نوئیڈا، غازی آباد ، لونی، کھوڑا کالونی، ہاپوڑ، بلند شہر اور سکندر آباد کے ہیں جو اچھی طرح علاقے کی جغرافیائی پوزیشن سے واقف ہیں۔ کم سے کم روزانہ دوچار چین جھپٹناگروہ کے ہر ممبر کو باقاعدہ نشانہ دیا جاتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!