سنگھ اپنی بالادستی اور ساکھ کی لڑائی لڑ رہا ہے


میں نے اسی کالم میں پچھلے آرٹیکل میں نتن گڈکری تنازعے پر لکھا تھا لیکن اب لڑائی بھاجپا بنام آر ایس ایس ہے۔ یہ لڑائی اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ بھاجپا قومی ایگزیکٹو کے ایک ممبر جگدیش شیٹر نے مطالبہ کیا ہے پورتی گروپ کو مشتبہ مالی گھوٹالے کے الزامات کے پیش نظر نتن گڈکری کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ شیٹر کا کہنا تھاگڈکری آر ایس ایس کے ورکر بھی ہیں جس کا دھرم سب سے پہلے ملکی مفاد ہے پھر پارٹی مفاد کی حفاظت کرنا ہے۔ اس لئے ضمیر کی آواز سے آر ایس ایس کے ورکر ہونے کے ناطے مجھے یقین ہے کہ وہ پورے دیش اور تنظیم کے مفاد میں سب سے پہلے قدم اٹھائیں گے۔ آر ایس ایس نے شیٹر کی بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن الٹا معاملے کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔ آر ایس ایس کے سابق ترجمان اور آئیڈیا لوجسٹ ایم جی وید نے اپنے بلاگ میں لکھ دیا کہ بھاجپا صدر نتن گڈکری کو بدنام کرنے کے پیچھے نریندر مودی کا ہاتھ ہے۔ گڈکری اگر عہدے پر بنے رہے تو شاید نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کی امیدواری میں پریشانی ہوسکتی ہے۔ ویدکا کہنا ہے لال کرشن اڈوانی اور گڈکری نے پبلک طور پر کہا کہ ان کی وزیر اعظم بننے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ ہم نے کہیں نہیں پڑھا کہ نریندر مودی ان خبروں سے انکار کرتے ہوں کہ ان کی وزیر اعظم بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ وید نے اپنے تبصرے پر قائم رہتے ہوئے کہا میرا نظریہ ہے اس لئے کیونکہ جیٹھ ملانی نے گڈکری کے استعفے اور نریندر مودی کو وزیر اعظم بنائے جانے کے معاملے کو ایک ساتھ اٹھایا اس لئے شک کی سوئی گجرات کی طرف گھومتی ہے۔ نتن گڈکری کو لیکر آر ایس ایس کو ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا دوہرا کردار بے نقاب ہورہا ہے۔ سنگھ میں اندرونی رسہ کشی ہے ۔ ایک دن ایک بیان آتا ہے تو دوسرے دن دوسرا۔جو پہلے سے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ مثال نتن گڈکری کو کلین چٹ دینے والے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایس گورو مورتی کا تازہ بیان ہے۔ اب گورو مورتی کہتے ہیں کہ کسی کی سیاسی بھی سیاسی پارٹی کے پردھان کو کاروبار نہیں کرنا چاہئے۔ پیر کو ہی گورو مورتی نے ایک کے بعد ایک کئی ٹوئٹ کرتے ہوئے اس معاملے میں اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی کہ وہ کسی ایسے آدمی کو کلین چٹ نہیں دے سکتے جنہیں وہ اچھی طرح نہیں جانتے۔ گڈکری کو میں بالکل نہیں جانتا۔ گورو مورتی کا کہنا تھا گڈکری کا مسئلہ سیاسی مسئلہ ہے اور اس سے بی جے پی جیسے نمٹتی ہے اس کا اپنا معاملہ ہے۔ خاص غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ بڑی بیان بازی آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کو اچانک دہلی پہنچنے کے بعد تیز ہوئی ہے۔ ہم اس کا کیا مطلب نکالیں؟ آج سنگھ کی ساکھ داؤ پر ہے۔ سنگھ کی بالا دستی کو بھاجپا کے اندر سے چنوتی مل رہی ہے اور اس سے وہ بوکھلا گیا ہے۔ بھاجپا نے پہلے بھی کئی بار سنگھ کی بالادستی ختم کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ بس جب اٹل جی پردھان منتری تھے تب کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عہد میں آس ایس ایس ڈرائیور سیٹ پر نہیں تھی۔ اب جب ایک بار پھر سنگھ کو چیلنج مل رہا ہے تووہ اپنی بالادستی اور ساکھ کی لڑائی لڑنے پر تلی ہوئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟