درگاہ حاجی علی پر عورتوں کے داخلے پر پابندی کا فتوی


وقتاً فوقتاً کچھ دقیانوسی مذہبی پیشوا ایسا فرمان جاری کردیتے ہیں جو سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ ممبئی کی حاجی علی درگاہ کی انتظامیہ نے درگاہ میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگانے کا فرمان جاری کیا ہے۔ ممبئی کے ورلی ساحل کے سمندر سے تقریباً500 میٹر سمندر کے اندر واقع پندرھویں صدی کے صوفی سنت پیر قاضی علی شاہ بخاری کی درگاہ ہے۔ یہاں دہائیوں سے غیر ملکی سیلانی و زائرین بے روک ٹوک آتے رہے ہیں۔ حاجی علی کے مزار پر جاکر اپنا سر جھکاتے رہے ہیں۔ عقیدت اور جذبات کے مطابق یہاں ہر مذہب ،فرقے اور ہرنسل کے لوگوں کے ذریعے مانگی جانے والی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ دیدار کرنے والوں کو لیکر کسی بھی طرح کا کوئی امتیاز اس درگاہ اور اس کے منتظمین کی جانب سے سننے میں نہیں آیا۔ حاجی علی کی درگاہ کے کچھ مولویوں نے یہ فرمان جاری کیا ہے کہ عورتیں درگاہ میں جاکر محض گھوم پھر سکتی ہیں یا دعاء مانگ سکتی ہیں لیکن ان کا مزار شریف کے قریب جانا اور وہاں لگی مقدس جالی کو پکڑ کر دعا کرنے ممنوع قراردیا ہے۔ یہ فیصلہ حاجی علی کی مشہور درگاہ کے علاوہ ممبئی کی سات دیگر درگاہوں پر بھی نافذ کیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ یہ کافی مقصد درگاہ ہے اور اسلام میں خواتین کا ان میں داخلہ ممنوع ہے اس لئے درگاہ کے انتظامیہ نے فرمان جاری کئے ہیں کے عورتیں صرف دروازے کے باہر کھڑی ہوسکتی ہیں لیکن اندر جہاں صوفی حاجی علی شاہ بخاری کی قبر ہے وہاں نہیں جاسکتیں۔ جانے مانے وکیل اور درگاہ کے ایک ٹرسٹی رضوان مرچنٹ نے کہا ہے کہ عورتیں باہر سے پھول نظر کرکے دعا کرسکتی ہیں لیکن انہیں اندر جانے سے بالکل منع کیا گیا ہے۔ مرچنٹ نے بتایا کہ شریعت کے مطابق یہ فتوی جاری کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ فتوی چھ مہینے پہلے جاری ہوا تھا جس کو لیکر کافی احتجاج اور مخالفت ہوئی تھی لیکن اب اس میں کچھ اصلاحت کرکے اسے سختی سے لاگو کیا جائے گا۔ اب بھارتیہ مسلم مہلا آندولن نے اس فیصلے پر نہ صرف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ ایسے دقیانوسی فتوؤں کے خلاف وسیع حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ عورتوں کی اس تنظیم کو جہاں زیادہ تر عورتوں کی حمایت حاصل ہے وہیں اصلاح پسند اور روشن خیال مرد سماج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ دیش میں چاروں طرف ایسے ہٹلر شاہی فتوؤں کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ دھرم کے ٹھیکیدار اور شریعت قانون کے رکھوالوں سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ صوفی سنت پیر علی شاہ کی درگاہ پر شرعی قانون نافذ کئے جانے کی آج ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے؟دوسری بات یہ کہ اگر عورتوں کی عدم پاکیزگی یا ان کے قابل اعتراض لباس درگاہ کے اندرونی حصے میں ممانعت کی وجہ ہیں تو پاک صاف رہنے والی عورتیں پورے کپڑے پہن کر درگاہ احاطے میں آنے والی عورتیں ایسی پابندی کا شکار کیوں؟ اس سے ایک سوال یہاں پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا درگاہ کے اندر کا حصہ یا مزار تک جانے والا ہر ایک شخص پاک صاف ہوتا ہے؟ پاکیزگی یا غیر پاکیزگی کی حدود کا تعین کرنے یا اس کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار یا طریقہ آخر کس کے پاس ہے؟کوئی شرابی بھی نا پاک ہوسکتا ہے؟ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ پابندی آج کے اس دور میں دیکھنے کو مل رہی ہے جب ہم انتہائی جدیدسماج اور ماحول میں جی رہے ہیں۔ اب ہمارے دیش کی درگا یا دیوی کہی جانے والی عورتیں مردوں کی برابری میں کھڑی ہیں۔ دیش میں تین اہم عہدوں پر آج بھارت میں عورتیں فائز ہیں جس میں حکمراں یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی، لوک سبھا کی اسپیکر میرا کمار، اور لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج خاص نظیر ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ درگاہ حاجی علی کے منتظمین اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں گے اور اس فیصلے کو واپس لیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟