فلاپ 2جی نیلامی کے دور رس اقتصادی نتائج متوقع


2 جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھی سرکار کو زور کا جھٹکا لگا ہے۔ نیلامی تقریباً فلاپ رہی ہے۔ سرکار کو اس سے قریب9400 کروڑ روپے ملیں گے جبکہ وہ امیدلگائے بیٹھی تھی کہ اسے40 ہزار کروڑ روپے آمدنی ہوگی دہلی اور ممبئی کے لئے تو دوسرے دن بھی کوئی خریدار نہیں ملا۔ صرف بہار کے لئے کمپنیوں نے دلچسپی دکھائی اور اس سرکل کا لائسنس پانے کے لئے زبردست مقابلہ رہا۔ پین انڈیا لائسنس حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔ دو دنوں کی نیلامی کے دوران آدھے سے بھی کم اسپیکٹرم کے لئے بولی لگائی گئی ۔ٹیلی کام کمپنیاں شروع سے ہی نیلامی کے لئے بنائے گئے سسٹم بیس پرائس کی مخالفت کررہی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی قیمت پر نیلامی میں حصہ لینا ممکن نہیں تھا۔ کمپنیوں کی مخالفت کی وجہ سے سرکار نے کم سے کم قیمت کو18ہزار کروڑ سے گھٹا کر14 ہزار کروڑ کردیا لیکن اس پر بھی کمپنیوں نے نا خوشی ظاہر کی تھی۔ دراصل ٹوجی اسپیکٹرم نیلامی سے 67 ہزار کروڑ روپے ملنے کے بعد سرکار امیدکررہی تھی کہ اس بار بھی وہی جادو دہرایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا ٹو جی اسپیکٹرم کی نیلامی کو لیکر کمپنیوں کا جذبہ ٹھنڈا پڑنے سے سرکار کو خسارہ کنٹرول کرنے میں دقت ہوسکتی ہے۔ مالی سال 2012-13 میں سرکاری خسارے کا ترمیم نشانہ جی ڈی پی کا 5.3 فیصد رکھا گیا۔ ٹوجی اسپیکٹرم کی نیلامی سے 40 ہزار کروڑ روپے حاصل کرنے کا نشانہ تھا لیکن اس سے صرف9407 کروڑ روپے ملیں گے۔ یہ ٹیلی کمیونی کیشن وزارت کے ذریعے مقرر28 ہزار کروڑ روپے کی مختص قیمت سے کہیں کم ہے۔ اتنا ہی نہیں پوری رقم چالو سال میں ملنے کا امکان ہے۔کیونکہ ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس سال میں تین قسطوں میں ادائیگی کا متبادل ہے۔ سرکار کو جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے ہیں۔ حکومت نے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے 30 ہزار کروڑ روپے کے محصول کا نشانہ رکھا ہے لیکن چالو مالی سال کے7مہینے میں کسی بھی پبلک سیکٹر کی کمپنی میں حصہ داری نہیں بیچی جاسکتی۔ ریزرو قیمت سے بھی کم پر ٹوجی اسپیکٹرم کی نیلامی ختم ہونے پر ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے سابق چیئرمین نرپیندر مشر نے ٹرائی کو ہی قصوروار قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا اتنا کم رقم حاصل ہونے کی خاص وجہ اتھارٹی کا غیر ذمہ دارانہ نظریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹوجی اسپیکٹرم نیلامی سے کم رقم حاصل ہونے کی بہ نسبت سال2010 کے تھری جی نیلامی سے حاصل رقم سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی اس کے لئے 2008 کی پوزیشن کو واضح کیا جانا چاہئے۔ اس وقت بازار بہتر حالت میں تھا۔ بازار میں نئے آپریٹروں کو لئے موزوں جگہ تھی۔ فی گراہک کمپنی کی آمدنی زیادہ تھی اگر کم رقم حاصل ہوئی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ غیر واجب قیمت مقرر کرنا ۔ پھر ایک سچویشن پوائنٹ بھی آتا ہے جب بازار میں اور گنجائش نہیں ہوتی۔ دہلی اور ممبئی سرکل میں یہ سچویشن پوائنٹ آچکا ہے۔ سرکار کو اس فلاپ نیلامی کے مضر نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)
2 لاکھ لوگوں 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!