حکمراں فریق کو ناگوار گذری سی اے جی ونود رائے کی رائے

کول بلاک اور ٹو جی اسپکٹرم الاٹمنٹ کو لے کر اپنی رپورٹ ہی کئی بار منموہن سنگھ کی سرکار کی مصیبت بڑھا چکے کمپٹرولر ایڈیٹر جنرل (کیگ) ونود رائے نے ایک بار پھر سرکار پر سیدھا حملہ بول دیا ہے۔ بدھوار کے روز گوڑ گاؤں میں ورلڈ ٹریڈ فورم کے ایک سیشن کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا سرکار جس طرح دلیری سے فیصلے لے رہی ہے وہ حیرت زدہ کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کرپشن پر موثر ڈھنگ سے کنٹرول کرنا ہے تو سینٹرل ویجی لنس کمیشن (سی وی سی) سی بی آئی اور مجوزہ لوک پال کو آئینی درجہ دیا جانا چاہئے۔ سی اے جی کی صاف رائے کیونکہ سی بی آئی اور سی وی سی آزار ایجنسیاں نہیں ہیں اس لئے لوگ انہیں سرکار کی کٹھ پتلی بتاتے رہتے ہیں۔ ہم ان کی مانگ سے متفق ہیں۔ اگر ان دونوں اداروں کو کرپشن کے خلاف موثر اوزار بنانا ہے تو انہیں سرکاری کنٹرول و دباؤ سے آزاد کرنا ہوگا۔ جب سے کرپشن کے خلاف کئی تحریکیں سامنے آئی ہیں تب سے یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ اس کے پیروکاروں کی دلیل ہے کہ انتظامیہ اور مالی معاملوں میں سرکار پر انحصار ان دونوں مسئلوں کو سرکار کی کٹھ پتلی بنا دیتا ہے اور ان کے ہاتھ باندھ دئے جاتے ہیں۔ سی بی آئی کی مختاری کی مانگ سیاسی پارٹیاں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ضرور کرتی ہیں لیکن جب اقتدار میں آجاتی ہیں تو اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیتی ہیں۔ دراصل کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ سی وی سی اور سی بی آئی آزادانہ طور سے کام کرے اور سرکار کو جوابدہ نہ ہو۔ قاعدے کے مطابق انتظامیہ کے پاس بڑی جوابدہی ہونی چاہئے۔ اسے ہر شہری کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور کئی بار ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں جو دوسروں کو اچھے لگیں۔ دیش کو چلانے کے لئے ان کے پاس کئی ایسی قومی ایجنسیوں کا ہونا ضروری ہے جو ان کی ہدایت پر کام کریں۔ اگر بہت سی ایجنسیاں کسی کی طرف سے ہدایت پر چلیں گی تو ایک طرح سے انتظامیہ کے ہاتھ بندھ جائیں گے جس سے ان کے کئی ضروری کام متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ کہنا ہے حکمراں فریق کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کا۔ تیواری نے سی اے جی کے بیان پر کہا ہے کہ ونود رائے جس سرکار پر دلیری بھرے فیصلے لینے جیسی تنقید کررہے ہیں خود رائے اسی سرکار کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اس لئے یہ تبصرہ ان پر زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا اگر وہ (رائے) فیصلہ لینے میں ڈھیٹ پن کی بات کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں یاد کرانا مناسب ہوگا کہ 2004 سے2008 تک اسی سرکار کا حصہ رہے تھے۔ ٹو جی معاملے سے لیکر کوئلہ بلاک الاٹمنٹ تک جب بھی سرکار سی اے جی رپورٹ کے چلتے پریشان ہوئی تو حکمراں فریق کے ذریعے ونود رائے کو اقتدار کا مہرہ تک بتانے کی کوشش کی گئی۔ بہتر ہوگا کہ اب ہمارا سیاسی طبقہ ان وارننگ کو دھیان سے سنے جو جمہوریت پر کرپشن کے منفی اثرات کو لیکر سماج کو کھائے جارہا ہے۔ جانچ اور انصاف دونوں موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ جنتا کا اب دونوں پر سے ہی بھروسہ اٹھتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟