دیوالی پر نئے سنکلپوں کے دیپ جلائیں


کراتک مہینے کی اماوس کو نہایت دھوم دھام کے ساتھ ہر سال منایا جانے والا پانچ روزہ دیپ پرو دیپاولی قدیم ہوتے ہوئے بھی نو سریجن و کرم مے جیون کا پرتیک ہے۔ ہم سبھی کی زندگی میں ہر سال نئی ارجا،نئی چیتنا، ایک نیا بھاؤ ،نئی الاس و نئے اتساہ کا بڑا سنگار کرنے آتا ہے۔ دیپاولی کا مقصد ہے جھوٹ پر سچائی کی جیت اور اندھکار پر پرکاش کی کرن والی وجے۔مہنگائی کے رونے، مصیبت کے قصے، آندولن، بحث ،دھرنا پردرشن اور کچھ دنوں کے لئے کہیں پرچلے جاتے ہیں۔ دہلی اور یا لدھیانہ یا بھوپال ہویا لکھنؤ، الہ آبادہو یا بنارس ہر جگہ تہواری رونق نظر آتی ہے۔ دیوالی کا سواگت کرنے کے لئے دہلی کے بازار تیار ہیں۔ اس تہوار پر گراہکوں کو دکھانے کے لئے مارکیٹ میں نئے نئے انداز میں نئے نئے پروڈکٹس پیش کئے جارہے ہیں۔ آنکڑوں کے مطابق دیپاولی اور اس کے ساتھ لگے دیگر تہواروں اور موقعوں پر 50 ہزار کروڑ سے زیادہ کی بکری ہوتی ہے۔ اس طرح اس موقعہ پر خرچ کرنے کے لئے اپ بھگتاؤں کے پاس سامنیہ موقعوں کے مقابلے 15 سے18 گنا پیسہ ہوتا ہے۔2012 کا تہواری سیزن وقت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ عام طور پر اس بڑھتی مہنگائی کی بات کرتے ہیں پر اگر ہم بازاروں میں بکتے سامان کو دیکھیں تو لگتا نہیں کے مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی خریداری میں کوئی کمی آئی ہے۔ گفٹوں کے بازار بھرے پڑے ہیں۔ اب لوگ دیوں کے آفر سے بچ کر بجلی کے بلبوں کی لڑیوں کو زیادہ پسند کررہے ہیں۔ مٹھائیوں میں ملاوٹ کی رپورٹوں کے چلتے لوگوں نے اب گفٹوں پر زیادہ دھیان دینا شرو ع کردیا۔درائی فورٹ ، کرارکری اور کولڈ ڈرنکس و جوس کے گفٹ پیک ،کپڑوں وغیرہ کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ایسا نہیں کہ مٹھائیوں کی بکری ختم ہوگئی ہے پر گھٹ ضرور گئی ہے۔ مٹھائیوں میں بھی ان مٹھائیوں کو اہمیت دی جارہی ہے جو کئی دنوں تک چل سکتی ہیں۔ بسکٹ کے گفٹ آئٹم بھی ہٹ ہورہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دیپاولی میں اسٹیشنری گفٹ کا چلن کافی زیادہ تھا۔ لوگ اپنے بچوں کو اسکول اور کالج و دوست اپنے دوستوں کو پین، ڈائری، پروگرام کلینڈر یا اس طرح کی دیگر چیزیں گفٹ کرتے تھے لیکن یہ کتابوں اور اسٹیشنری بازار انٹر نیٹ اس پراثر انداز ہوا ہے۔ لکھنے پڑنے کا کام کم ہوتا جارہا ہے۔ تہوار محض ایک شخص کا نہیں ہوتا بلکہ کسی کے دیش کی ریت کو درشاتا ہے۔ اس دیش کی پرمپرا کو پہچاننے کے لئے ساہک ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے دیپاولی کیا درشاتا ہے۔ دیپاولی یعنی دیپ کا تہوار۔ دیپاولی اجلے من کا تہوار ہے کیونکہ دیپاولی میں خوشیاں جگمگاتی نظر آتی ہیں۔ چاروں طرف روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے اس لئے دیپاولی کو سنکلپ ورت کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔اگر ہم کوئی قسم یا سنکلپ اس دوران لیتے ہیں تو اس کے پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ سنکلپ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایسی چیز کرنے کا من بنالیں جو اسمبھو ہو۔ دیوالی کی بات کریں تو پٹاخوں اور آتشبازی کی بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ پہلے لوگ آتشبازی کا خوب مزہ لیتے تھے۔ پھر گاڑیوں میں بڑھتی آلودگی کی وجہ سے آتشبازی کا شور کم ہوا ہے۔ میں یہ تو دعوے سے نہیں کہہ سکتا کہ پٹاخوں کی بکری میں کتنی کمی آئی ہے پر یہ مہنگے ضرور ہوگئے ہیں۔ایکو فرینڈلی پٹاخوں کا بھی رواج شروع ہوگیا ہے۔2005ء میں جہاں محض کچھ لاکھ روپے کے ہی ایکوفرینڈلی پٹاخے دہلی میں بکے تھے وہیں آج دہلی میں ہی ان کی بکری30-40 کروڑ روپے پہنچ گئی ہے۔ آپ سب کو دیوالی مبارک۔ذرا دھیان رہے بموں اور لڑیوں جیسے آلودگی بڑھانے والے پٹاخوں پر زور کم رہے اورا یسے پٹاخے جلائے جائیں جو ہوا کو اور آلودہ نہ کریں۔ پہلے سے ہی دہلی میں (سماگ) کی چادر چھٹی نہیں ہے۔اس کو اور نہ بڑھائیں۔ سیف دیوالی منائی۔ ہر سال دیوالی کے دن 200 سے زیادہ لوگ جل جاتے ہیں احتیاط برتیں اور سیف دیوالی منائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!