پاکستانی وزیر نے فلم پروڈیوسر کے قتل کیلئے انعام مقرر کیا


پاکستان میں امریکہ میں بنی ایک فلم پر جس طرح سے ہنگامہ مچا ہوا ہے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی کمزور حالت کا شکار ملک میں حالات اور خراب ہوگئے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آبادمیں واقع غیر ملکی سفارتخانے جس علاقے میں ہیں ان کی حفاظت کے لئے فوج کو بلانا پڑا ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے موقعے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب پاکستان کے وزیر ریل غلام احمد بلور نے سنیچر کو اعلان کیا کہ فلم بنانے والے پروڈیوسر کو قتل کرنے والے کو 1 لاکھ ڈالر دیا جائے گا۔ انہوں نے دلیل دی کہ احتجاج اور مظاہرے کرنے و توہین مذہب کیلئے فلم ساز کے قتل کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ا نہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے ممنوعہ آتنک وادی تنظیموں طالبان اور القاعدہ سے بھی اپنی حمایت دینے کی اپیل کی۔ اگر انہوں نے بے حرمتی کرنے والی فلم کے پروڈیوسر کو ماردیا تو انہیں انعام سے نوازا جائے گا۔ بلور نے یہ اعلان ایک منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس بیا ن نے بھڑکی آگ میں گھی کا کام کیا۔ پاکستان حکومت نے وزیر ریل کے اس بیان سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کی۔ سرکاری ترجمان نے بتایا کہ وزیر کے تبصرے سے ہم خود کو الگ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بلور کے بیان سے سرکار کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ایک افسر نے بتایا کہ صدر اور وزیر خارجہ دونوں کا خیال ہے کہ یہ ویڈیو توہین آمیز اور نفرت پھیلانے اور قابل مذمت ہے لیکن اس سے تشدد کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ یہ ضروری ہے کہ ذمہ دار لیڈر تشدد کے خلاف کھڑے ہوں اور بولیں۔ بیان میں اس افسر نے کہا کہ ہم نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں بلور کے اس اعلان سے خود کو الگ کرلیا ہے۔ مسلم مخالف اس فلم کے خلاف مظاہرے کے دوران دہشت گردی، لوٹ مار، اقدام قتل کے معاملے میں پاکستانی پولیس نے 6 ہزار سے بھی زائد نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ لاہور پولیس کے ترجمان نے بتایا 36 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہیں نہ کہیں زرداری حکومت نے احتجاجی مظاہروں کو ہوا دی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ پیچیدہ اشو اور سرکار کی ناکامی سے ہٹائی جا سکے۔ اگلے عام چناؤ زیادہ دور نہیں ہیں اور زرداری حکومت کی ساکھ تیزی سے گر رہی ہے۔ سرکار مذہبی کارڈ کھیل کر کچھ مقبولیت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بھلے ہی اس کوشش میں حالات اور زیادہ بگڑیں۔ جب سرکار، اپوزیشن ، فوج سبھی مذہبی اشو کو ہوا دیں گے تو ظاہر ہے کہ بھیڑ کو فساد بھڑکانے میں مدد ملے گی۔ اگر امریکہ مخالف لہر اور تیز ہوتی گئی تو یہ حکومت کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ تمام انتہا پسند تنظیم پاکستان سرکار پر امریکہ کا ساتھ نہ دینے کیلئے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان میں اسلام مخالف فلم ’انوسینس آف دی مسلم‘ کو لیکر جمعہ کو ہوئے تشدد آمیز مظاہروں کے بعد بحث چھڑ گئی ہے کہ اس فلم کے خلاف پاکستان حکومت نے مظاہروں کی کھلی چھوٹ دی ہے۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت والی حکومت نے جمعہ کو ’پیغمبرؐمحبت دوس‘ انعقاد کیا تھا تاکہ کٹر پسند تنظیموں تشدد پر مبنی مظاہروں کو روکا جاسکے۔ واقف کاروں کا کہنا ہے سرکار پورے حالات کا جائزہ لینے میں ناکام رہی ہے۔ اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون کے مدیر عمر آر قریشی نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ سرکار نے سوچا تھا کہ وہ مذہبی تنظیموں کو الگ تھلگ کر لے گی لیکن آخر میں اس نے ان تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنے کا کام کیا۔ قریشی کی طرح پاکستان کے کئی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے اس حساس ترین اشو پر کٹر پسند تنظیموں کو آگے بڑھنے کا موقعہ دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!