گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ملائم سنگھ یادو


ترنمول کانگریس کی حمایت واپسی کے فیصلے سے لڑکھڑائی منموہن سنگھ سرکار کو اس وقت بڑا سہارا مل گیا جب سماجوادی پارٹی نے فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کردیا۔ اس طرح ملائم دوہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کے ہاتھ میں احتجاج کا گھڑا ہے، دوسرے ہاتھ میں سرکار کو بچانے کا ایجنڈا۔ یہ دوسری بار ہے جب ملائم نے اس حکومت کو سنجیونی دی ہے۔ 2008ء میں بھی جب امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے پر لیفٹ پارٹیوں نے حمایت لی تھی توسپا نے منموہن سنگھ سرکار کے ڈھائی سال کی نیا پار لگادی تھی۔ ملائم سنگھ یادو دراصل اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کانگریس کے دشمن بھی دکھائی دینا چاہتے ہیں اور پردے کے پیچھے دوسی کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مرکزی سرکار سے فائدہ بھی لینا چاہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں کہ سرکار جلدی سے رخصت ہوجائے تاکہ یوپی میں انہیں فائدہ مل سکے۔ وہ مسلم ووٹوں کی ناراضگی کے خوف سے سرکار گرانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ ملائم کے دل میں تیسرے مورچے کا خواب اور مرکز میں سرکار چلانے کا کنگ میکر بننے کا تصور ہے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ سپا کی کسی چال سے بسپا اور کانگریس میں دوستی گہری ہوجائے۔ داؤ پیچ میں ماہر ملائم سنگھ یادو سیاست میں دو کشتیوں کی سواری کی کہاوت کو دوہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بار ہر بار کی طرح منموہن سرکار کی حمایت جاری رکھنے کے پیچھے فرقہ وارانہ طاقتوں کو آگے بڑھانے سے روکنے کی دلیل دی گئی ہے۔ منموہن سرکار کو آنکھیں دکھا رہے ملائم سنگھ یادو 72 گھنٹے سے بھی کم وقت میں لائن پر آگئے۔ ٹھیک 24 گھنٹے پہلے سرکار کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاری دینے والے ملائم کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ طاقتوں کی یاد آگئی اب وہ کانگریس کو حمایت دینا جاری رکھیں گے کیونکہ انہیں ان طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہے۔ پچھلے تین دنوں میں ملائم سنگھ نے کئی رنگ بدلے ہیں۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ماہر ملائم سنگھ یادو نے 19 ستمبر کو کہا تھا کہ ایف ڈی آئی کو منظوری اور ڈیزل کے دام میں اضافے کا فیصلہ مرکزی سرکار کو واپس لینا ہوگا۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ عوام مخالفت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سرکار سے حمایت واپس لینے کا فیصلہ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں رائے مشورہ کرنے کے بعد لیں گے۔ یہ میٹنگ 20 ستمبر کو ہونی تھی۔ 20 ستمبر کو ملائم مرکزی سرکار کے خلاف جنتر منتر پر دھرنا دے رہے تھے۔ چندرا بابو نائیڈو، پرکاش کرات، سیتا رام یچوری، اے بی بردھن کی موجودگی میں سرکار کی مخالفت تھی۔ ملائم کے ساتھ چھوٹی پارٹیوں کے لیڈروں کی موجودگی نے تیسرے مورچے کی قیاس آرائیوں کو ہوا دے دی۔ خود ملائم یہ بولے کے وزیر اعظم تیسرے مورچے کا ہوگا۔ پورے دن یہ بیان بحث کا موضوع رہا۔ ملائم نے حمایت واپسی پر کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پارٹی کی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ ہوئی ۔ ان کے چھوٹے بھائی و ترجمان راج گوپال یادو نے تو یہاں تک کہہ دیا کے ایسی کوئی میٹنگ ہونی ہی نہیں تھیں۔ جمعہ کو ملائم کے تیور پوری طرح بدلے ہوئے تھے۔ ترنمول کانگریس کے تیور پوری طرح سے سخت تھے جب ان کے وزیر وزیر اعظم کو اپنے استعفے سونپنے جا رہے تھے تب ملائم میڈیا کو دیش پر فرقہ وارانہ خطرے کی باتیں بتا رہے تھے۔فرقہ وارانہ طاقتوں سے ان کا مطلب بھاجپا ہے۔ سپا۔بھاجپا کو چاہے جس طرح سے تشبیہ دے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت وہ کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ اس کا مطلب ہے دیش کی عوام کے ایک بڑے طبقے کو سپا کی اس دلیل میں کوئی دم نظر نہیں آتا۔ فرقہ وارانہ طاقتوں کو دور رکھنے کے لئے وہ یوپی اے سرکار کو حمایت دینے کیلئے مجبور ہو۔ سپا جسے اپنی مجبوری بتا رہی ہے وہ ان کی بڑی کمزوری ہے۔ دیش کی عوام کو یہ ہی پیغام جارہا ہے کہ سپا سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے یوپی اے سرکار کو راحت دے رہی ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت بسپا کی بھی ہے یہ دونوں پارٹیاں جس طرح دو کشتیوں کی سواری کررہی ہیں اس سے انہیں گھاٹا اٹھانا پڑے گا۔ ملائم بھلے ہی کانگریس کی حمایت کی وجہ سے فرقہ وارانہ طاقتوں کو مضبوط نہ ہونے دیں لیکن یہ اکیلی وجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ملائم کا اپنا حساب کتاب ہے۔ وہ مرکزی سرکار پر دباؤ بنا کر اسے اپنی انگلی پر نچانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اترپردیش کے لئے مرکز سے زیادہ سے زیادہ اقتصادی فائدہ بھی لینا چاہتے ہیں اور اس دوران اپنے آپ کو زیادہ مضبوط بھی کرنا چاہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟