راجدھانی میں بڑھتا سینس لیس قتل کا دور باعث تشویش


راجدھانی میں ایک بار پھر قتل عام کے دور نے تشویش پیدا کردی ہے۔ ایک طرفہ محبت، ناجائز رشتے و پاگل پن کے چلتے بڑھتی اور کبھی بالکل بے تکے قتل اور خودکشی کا دور کم ہی دیکھا گیا ہے۔ 3ستمبر کو ایک سرپھرے عاشق روی نے بندا پور اور غازی آباد میں ایک کے بعد ایک پانچ قتل کی وارداتوں کو انجام دیا اور اس کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔7 ستمبر کو سروپ نگر میں دو دوستوں منیش اورراجبیر نے پیار کی ناکامی میں و کنبے میں اندرونی رسہ کشی سے پریشان ہوکر پانچ لوگوں کو گولی مارنے کے بعد خود کو بھی گولی سے اڑالیا۔ دو دن پہلے دہلی پولیس کے ایک کانسٹیبل وجے کمار کو جب لگا کہ اس کی بہن کے 9 سال پہلے جہیز کے لئے قتل معاملے میں اسے عدالت سے انصاف ملتا نظر نہیں آرہا ہے تو اس نے اپنی سرکاری بندوق سے باہری دہلی کے علی پور فارم ہاؤس علاقے میں اپنے بہنوئی منوج کمار (36 سال) اس کی ماں پرکاش دیوی (62 سال) پر تابڑ توڑ فائرنگ کر دونوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ باہری دہلی کے روہنی سیکٹر 17 علاقے میں ایک بدمعاش نے گھر میں گھس کر کاروباری اور اس کی بیوی و بیٹی پر دھار دار ہتھیار سے گلا کاٹ کر ماڈالا۔ تینوں کو اسی دن ویشنودیوی تیرتھ یاترا پر جانا تھا لیکن سب سے تکلیف دہ حادثہ سر گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر سنجیو دھون کے قتل کا ہے۔ نیو راجندر نگر میں نوکرانی کے پیار میں پاگل سابق فوجی نے سینئر امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر سنجیو دھون کو گولی مار کر قتل کردیا۔ ڈاکٹر دھون ہسپتال میں کارڈیولوجی شعبے میں وائس چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر دھون نے اپنے 20 سال کے کیریئر میں تقریباً 500 لوگوں کی زندگی بچائی تھی۔ ان میں 15 زندگیاں تو ایسے ڈاکٹروں کی ہیں جو آج سیکڑوں لوگوں کی جان بچا رہے ہیں۔ ڈاکٹر سنجیو تو اپنی موت کے بعد بھی لوگوں کو زندگی دینا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کے ان کے اعضاء عطیے میں دے دئے جائیں لیکن دل میں گولی لگنے سے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ ایسے قابل شخص جس نے سینکڑوں جانیں بچائی ہوں اور مستقبل میں وہ دانی ہو، اسے مارنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ ڈاکٹر بھگوان کا روپ ہوتا ہے اسے ہی پاگل پریمی نے اپنی جلن کا شکار بنادیا؟ اس قتل پر حیرت زدہ ہونا فطری ہے۔ ستمبر میں ہی اس طرح کے قریب 10 معاملے آ چکے ہیں۔یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں راجدھانی میں برداشت کی کتنی کمی آرہی ہے۔ رشتوں کے بگڑے تانے بانے سے کس طرح سماج میں بکھراؤ کی حالت پیدا ہورہی ہے۔ تنک مزاجی، ایک طرفہ محبت و ناکامی کے چلتے خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کی حالت پورے سماج کے ڈھانچے کو متاثر کررہی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق خاندانی دوریاں اور زیادہ کشیدگی ،کونسلنگ کی کمی اس کی خاص وجہ بن رہی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہورہا ہے کہ ہمارے صبر اور اخلاقی اقدار میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ علیحدہ خاندانوں کا چلن اور جلدی میں سب کچھ پانے کی للک و تیز بھاگتی زندگی میں بڑھتی مایوسی اس طرح کے سینس لیس تشدد کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ پھر آسانی سے ہتھیاروں کا ملنا، فلموں میں بڑھتے تشدد کے مناظر بھی لڑکوں کو جرائم کی راہ پر لے جارہے ہیں۔ جرائم کی یہ شکل پورے سماج کے لئے ایک بڑی چنوتی ہے۔ یہ محض پولیس اور بگڑتے قانون و نظم کی وجہ نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟