اگروالمارٹ اتنی اچھی ہے تو نیویارک میں اس کی مخالفت کیوں؟
دنیا کی نامور خوردہ کاروبار کرنے والی کمپنی والمارٹ کا راستہ صاف کرنے کے لئے بھارت میں تمام فائدے گنائے جارہے ہیں۔ امریکہ کی یہ نامور کمپنی 16 دیشوں میں 404 ارب ڈالر کا کاروبار کرتی ہے۔ حالانکہ اور بھی کئی بڑی کمپنیاں ہیں جیسے فرانس کی کیئرفور(36 ملکوں میں122 ارب ڈالر کا کاروبار) جرمنی میں میٹرو اے جی (33 ملکوں میں 2009 میں 91 ارب ڈالر کا کاروبار) برطانیہ کی ٹیسکو جس کی اسٹریٹ13 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کا محصول کاروبار 90.43 ارب ڈالر کا تھا لیکن سب سے بڑی کمپنی والمارٹ ہے۔ اس کے ایشیا پریزیڈنٹ اور سی او اسکوات پرائس نے کہا ہے کہ ہندوستان میں پہلا والمارٹ ریٹیل اسٹور 12 سے18 مہینوں کے اندر کھل سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی ہم دیگر ریاستوں سے اجازت مانگیں گے جو غیر ملکی خوردہ دوکان اپنے یہاں کھلوانے کی خواہش جتا چکے ہیں۔ حالانکہ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ بھارت میں ہم کہاں کہاں اور کتنے اسٹور کھولیں گے۔ اس وقت بھارتی کے ساتھ 17 کیش اینڈ کیری اسٹورس میں والمارٹ کی حصہ داری ہے۔ سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بیشک وزیراعظم منموہن سنگھ جتنے بھی والمارٹ کے فائدے گنائیں لیکن یہ کمپنی خود اپنے دیش میں ہیں زبردست جھٹکے سے دوچار ہورہی ہے۔ چاہے معاملہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کا ہی کیوں نہ ہو۔ کمپنی نے یہاں اپنا پہلا بڑا اسٹور کھولنے کی اسکیم بنائی تھی لیکن وہاں کے مقامی چھوٹے تاجروں کی زبردست مخالفت کی وجہ سے کمپنی کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑے تھے۔ویسے نیویارک میں پہلے سے ہی چھوٹے اسٹور موجود ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق والمارٹ نے مشرقی نیویارک کے برک لن میں نیا شاپنگ سینٹر بنایا ہے ۔ اسی میں وہ میگا اسٹور کھولنے کی تیاری کررہی تھی مگر مقامی یونین سٹی کونسل کے ممبران اور لوگوں کے گروپ نے اس پر سخت اعتراض ظاہر کیا۔ اس کے بعد کمپنی نے پچھلے ہفتے اس منصوبے کو منسوخ کردیا۔ امریکہ کے تقریباً ہر چھوٹے شہر میں کمپنی کے 4 ہزار سے زیادہ اسٹور ہیں مگر سکے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بڑے اسٹور کھولنے کے لئے کمپنی کوہر جگہ چنوتیوں سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ نیویارک سے پہلے کئی اور بڑے شہروں میں کمپنی کے بڑے اسٹوروں کے خلاف احتجاج ہوچکا ہے۔ نیویارک میں میگا اسٹور کھولنے کے لئے کمپنی 2007 سے کوشش میں لگی ہوئی تھی لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی۔ نیویارک کو والمارٹ سے نجات دلانے کے لئے باقاعدہ ایک تنظیم بنائی گئی ہے۔ والمارٹ فری نیویارک سٹی گروپ کے ترجمان اسٹیفنی یاگزی کے مطابق کمپنی کے پیچھے ہٹنے سے ثابت ہوگیا ہے نیویارک کے لوگوں کو بھی والمارٹ کا کاروباری طریقہ پسند نہیں آرہا ہے۔ احتجاج کرنے والے امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی اپنے ملازمین کو تنخواہیں کم دیتی ہے ساتھ ہی انہیں جو سہولتیں ملنی چاہئے تھیں وہ بھی بدتر ہوتی جارہی ہیں۔ یہ کم دام رکھ کر اپنے آس پاس کے چھوٹے دوکانداروں کے منافع پر چوٹ پہنچاتی ہیں تاکہ انہیں بھگایا جاسکے۔ منموہن سنگھ دلیل دے رہے ہیں اس سے کسانوں اور صارفین کو فائدہ ہوگا مگر کچھ واقف کار اس دلیل کو مسترد کرتے ہیں۔ زراعتی ماہر دویندر شرما کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کے منظم خوردہ کاروبار میں بھلے ہی تیزی آئی ہو لیکن اس کا فائدہ کسانوں کو کم ہی ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان ملکوں کا زرعی سیکٹر ابھی بھی بھاری سرکاری سبسڈی پر نہیں چل پاتا۔ منموہن سنگھ بھلے ہی والمارٹ کو بھارت لانے میں جو بھی دلیلیں دیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ظاہر کرتی ہے۔ (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں