زمین آسمان کے بعد اب سمندر میں بھی گھوٹالہ


منموہن سنگھ سرکار کے گھوٹالوں کے پردہ فاش ہونے کا سلسلہ ابھی رک نہیں رہا ہے۔ زمین ۔آسمان کے بعداب سمندر میں بھی گھوٹالے کا پتہ چلا ہے۔ آکاش (ٹو جی اسپیکٹرم) زمین (کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالہ) اب سمندر میں بھی گھوٹالے سے اچھوتی نہیں رہی یہ سرکار۔ خلیجی بنگال اور بحر عرب میں معدنیاتی ذخیرے کی تلاش کے لئے بلاکوں میں الاٹمنٹ گھوٹالے کی سی بی آئی جانچ شروع کردی ہے۔ سمندر میں معدنیاتی تلاش کے لئے کل 63 بلاکوں میں سے28 بلاک انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک سابق افسر کے گھر خاندان سے وابستہ چار کمپنیوں کو الاٹ کئے جانے کا الزام ہے۔ سی بی آئی کے ذرائع کے مطابق ابتدائی جانچ کے معاملے میں ناگپور میں واقع سینٹرل کھدائی بیورو اور مرکزی وزارت کھان کے نامعلوم افسران کے ساتھ ساتھ چاروں نجی کمپنیوں اور ان کے ڈائریکٹروں کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔ جن چار کمپنیوں کو تقریباً آدھے معدنیاتی بلاک الاٹ کئے گئے ہیں وہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سابق افسر اشوک اگروال اسی محکمے سے پہلے وہ وزارت کھان میں بھی کام کرچکے ہیں۔اشوک اگروال ڈیفنس دلال ابھیشیک ورما کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے سرخیوں میں رہے تھے۔ سمندر کے اندر چھپے کافی مقدار میں معدنیاتی اثاثے کو نکالنے کے لئے وزارت کھان نے پہلی بار 2010ء میں 636 بلاکوں کے لئے ٹنڈر جاری کئے تھے۔ کل 377 کمپنیوں نے درخواست دی اور مارچ2011ء میں وزارت کھان نے الاٹ بلاکوں کی فہرست جاری کی۔ ان میں سے28 بلاک ایک ہی خاندان سے جڑی چار کمپنیوں کو دئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ کمپنیوں نے ممبئی اور حیدر آباد میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہائی کورٹ نے الاٹمنٹ کے طریقے پر روک لگاتے ہوئے سی بی آئی کو پورے معاملے کی جانچ کا حکم دیا۔ 
ہائی کورٹ کے اسی حکم کے تحت سی بی آئی نے ابتدائی جانچ کرکے معاملہ درج کیا ہے۔ تفتیش سے وابستہ ایک سینئر افسر نے کہا کہ جلد اس سلسلے میں وزارت کھان اور مرکزی کھان بیورو کے افسروں کو پوچھ تاچھ کے لئے بلایا جائے گا ساتھ ہی وزارت کھان کو الاٹمنٹ سے جڑے سبھی دستاویز ایجنسی کو سونپنے کے لئے کہا جائے گا۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ منموہن سنگھ کے عہد میں گھوٹالے پر گھوٹالے کا پردہ فاش ہورہا ہے۔ اس حکومت نے تو کسی سیکٹر کو نہیں بخشا۔ دیش کو پتہ نہیں کتنے اربوں کا نقصان ہوا ہے۔ پتہ نہیں کبھی اس کا صحیح جائزہ لیا جا سکے گا یا نہیں۔ دیش کو کتنا لوٹا گیا؟ زمین ،آسمان اور اب سمندر کہیں بھی تو نہیں چھوڑا گیا اور یہ سب کچھ ایماندار وزیر اعظم کی آنکھوں کے نیچے ہوا۔ پھر بھی وہ’ مسٹر کلین‘ ہیں اور مسٹر کلین نے تو دیش کو لوٹنے کا جیسے لائسنس ہی دے دیا ہو۔ جہاں موقعہ ملے لوٹ لو۔ پتہ نہیں ابھی اور کتنے گھوٹالوں کا پردہ فاش ہونا باقی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟