مانسون اجلاس میں منموہن سرکار کی ہوگی اگنی پریکشا


پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس8 اگست سے شروع ہونے جارہا ہے۔ یہ اجلاس منموہن سنگھ کی یوپی اے ۔II سرکار کے لئے زبردست چنوتی لے کر آرہا ہے۔ یہ اجلاس کئی محاذ پر پہلے سے ہی گھری سرکار کے لئے ایک موقعہ دینے یا بریک اجلاس ہوسکتا ہے۔ سرکار کو نہ صرف رکے ہوئے فیصلے لینے کے لئے پہل کرنی ہوگی بلکہ یوپی اے کی ساتھی پارٹیوں کو سمیت کر اپوزیشن کے سخت تیور بھی جھیلنے ہوں گے۔ دیش میں اس وقت کئی ریاستوں میں سوکھا پڑ رہا ہے۔ پہلی چنوتی تو خشک سالی سے نمٹنے کی ہوگی۔ خشک سالی کے سبب مہنگائی اور بڑھے گی۔ اس سے لوگوں میں ہائے توبہ مچے گی۔ پہلے تو پرنب دا تھے جو سنکٹ موچک کا کردار نبھاتے تھے اور کسی بھی سیاسی بحران سے نمٹنے میں وہ پوری طرح اہل تھے لیکن اب ان کی کمی یہ سرکار کسے پوری کرے گی؟ پرنب دا سرکار کے بہتر حکمت عملی ساز اور سنکٹ موچک اور با صلاحیت منیجر تھے جن کی کانگریس اور یوپی اے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں سے بھی اچھی پٹتی تھی۔ غورطلب ہے کہ اس اجلاس میں جہاں ایف ڈی آئی، پنشن،بیمہ بل، مہنگائی، تلنگانہ اشو، بلیک منی، اقتصادی ترقی جیسے اشوز سرکار کے لئے بڑی چنوتی بنیں گے۔ وہیں کانگریس کے ایک دقت ہاؤس میں ان سارے اشوز پر ان کا موقف رکھنے کے لئے اور بچاؤ کرنے کے لئے پرنب دا مکھرجی جیسا سینئر لیڈراور ہاؤس کالیڈر بھی نہیں ہوگا۔ پی چدمبرم کو نیا وزیر خزانہ بنا دیا گیا ہے۔ بھاجپا سمیت کامریڈوں کی چدمبرم سے ویسے ہی تلخی بنی رہتی ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ چدمبرم پر اپوزیشن اب کیا موقف اختیارکرتی ہے۔ کیا ان کا بائیکاٹ اب بھی جاری رہے گا؟ اگر اب بھی جاری رہتا ہے تو پارلیمنٹ شاید ہی ٹھیک ٹھاک چل سکے۔ ملائم سنگھ یادو وسط مدتی چناؤ کی بات کئی بار کہہ چکے ہیں۔ سرکار کے مستقبل کو لیکر بے یقینی کی حالت پائی جاتی ہے اس لئے بھی اپوزیشن اور زیادہ حاوی رہے گی۔ کانگریس کے لئے ایک بڑی چنوتی اپنے اتحادی پارٹیوں کی طرف سے بھی دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے اجلاس تک اتحادی پارٹیوں میں صرف ٹی ایم سی سرکار مخالف لہجہ اپنائے ہوئے تھی اس بار این سی پی،ترنمول اور ڈی ایم کے کے بھی تیور بدلے ہوئے ہیں۔ ان پارٹیوں کی طرف سے سرکار میں اپنی موجودگی کی تصویر کو لیکر بھی کانگریس پر دباؤ بنا رہے گا۔ ایف ڈی آئی ، اقتصادی اصلاحات سے وابستہ بلوں پر جس طرح سے ٹی ایم سی ، لیفٹ اور این سی پی جیسی پارٹیوں کا موقف سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے سرکار کی راہ آسان نہیں لگتی۔ تنظیمی سطح پر بھی کانگریس کے سامنے کئی چنوتیاں کھڑی ہیں۔ اس کا اثر پارلیمنٹ میں بھی دکھائی پڑ سکتا ہے۔ سال کے آخر میں گجرات اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں میں چناؤ ہونے ہیں۔ اس درمیان کئی ریاستوں میں پردیش کانگریس میں بھی کھینچ تان جاری ہے۔ ان میں ہماچل پردیش، آندھرا پردیش، مہاراشٹر جیسی ریاستیں شامل ہیں۔ کرپشن کا اشو سرکار کا پیچھا مانسون اجلاس میں بھی نہیں چھوڑے گا۔ ٹیم انا سیاسی میدان میں کود چکی ہے اور رام دیو بھی پارلیمنٹ سیشن شروع ہونے کے ٹھیک ایک دن بعد انشن تحریک میں اتریں گے۔ اپوزیشن بھی اپنے تیور میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ سرکار اس مقام پرپہنچ چکی ہے اب وہ جھٹکے نہیں جھیل سکتی اور چھوٹی غلطی بھی سرکار کے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ اگست میں کئی اہم اشوز پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا ہے۔ کل ملا کر ہماری رائے میں اس منموہن سنگھ سرکار کی اس مانسون اجلاس میں اگنی پریکشا ہوگی دیکھیں کیسے یہ اس پریکشا میں کھری اترتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟