وکسن گورودوارے میں نسلی گولہ باری


امریکہ کے وکسن صوبے میں ایتوار کو ایک امریکی کے ذریعے گوردوارے کے اندر گھس کر فائرنگ کرنے کے واقعے نے دنیا کے مہذب سماج کو چونکا دیا ہے۔مقامی وقت کے مطابق صبح پونے گیارہ بجے ایک گورا نوجوان جس نے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، اس کے ہاتھ میں 9/11 کا ٹیٹو بنا ہوا تھا۔ گوردوارے کے اندر گھسا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ 7 سکھ بھکتوں کی موقعے پر موت ہوگئی اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ایتوار کو کیونکہ چھٹی کا دن تھا اس لئے گوردوارے میں زیادہ شردھالواکٹھے تھے۔ وکسن کے علاقے اوککرک واویل ایوینیو میں واقع گورودوارہ 1980ء میں بنایا گیا تھا اب اس گورودوارے میں خاص کر چھٹیوں کے دن 100 سے زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو گورودوارے میں منعقدہ پنجابی و ہندی میں تعلیم لیتے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں جب امریکہ میں سکھوں کے خلاف تشدد کی واردات ہوئی۔ امریکہ 9/11 کے حملے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہوا ہے۔ایک دہائی سے سکھوں کے ساتھ بدسلوکی کی وارداتوں کے ساتھ خطرناک حملے کے کئی واقعات بھی ہوچکے ہیں لیکن گورودوارے کو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا یہ پہلا معاملہ ہے۔ پہلے فروری2012 میں ایک گورودوارے میں توڑ پھوڑ کر اس کی دیوار پر نسلی نعرے لکھنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ دراصل نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر11 ستمبر 2001ء کو ہوئے حملے کے ردعمل میں ہوئے تشدد کا پہلا شکار سکھوں کو بنایا گیا تھا۔ ایریزونہ صوبے میں گیس اسٹیشن چلانے والے دلبیر سنگھ سوڑی کو 15 ستمبر2011 میں گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اسی سال18 نومبر کو نیویارک اسٹیٹ کے فلیریو میں سکھ پوجا گھر گھووند سدن کو جلا دیاگیاتھا۔امریکہ میں سکھوں کے لئے کام کرنے والی انجمن سکھ کولیشن کا کہنا ہے کہ 9/11 کے بعد سکھوں کے ساتھ امتیاز برتنے کے 700 واقعات ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں قریب 7 لاکھ سکھ خاندان رہتے ہیں لیکن داڑھی اور پگڑی کے سبب انہیں بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر چہ فائرنگ کی حقیقت کا آخری خلاصہ ہونا باقی ہے لیکن پہلی نظر میں ایتوار کا یہ واقعہ نسلی نفرت کا نتیجہ لگتا ہے۔ نسلی کٹرپسندی اور نفرت اس کے دو پہلو ہیں۔ گورودوارے کی پارکنگ کے اندر بے قصور شردھالوؤں پر گولیاں چلانے والا 40 سالہ گورا بھی اسی نسلی نفرت سے بھرا ہوا تھا۔ حالانکہ اسکی پہچان جانچ ایجنسیوں نے خفیہ رکھی ہوئی لیکن کہا گیا ہے اس کے بازو پر 9/11 کا ٹیٹو تھا اسے ماننے میں کوئی پریشانی نہیں ہے کہ 9/11 کے واقعے سے امریکی سماج میں یہ واقعہ تکلیف دہ علامت بن گیا ہے اس لئے اسکی افسوسناک یادگار کو بسائے رکھنے والوں کے تئیں وسیع امریکی سماج کی ہمدردی فطری طور پر حاصل ہوجاتی ہے۔ اسے قومی یادگار مان لیاگیا ہے لیکن یہ نسلی دشمنی ، سنک کی شکل لینے لگی ہے۔ امریکہ میں کچھ لوگوں کے دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ سکھ شکل صورت اور خاص کر پگڑی سے مسلمان جیسے لگتے ہیں جنہوں نے 9/11 کو انجام دیا تھا اس لئے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ا ن کی اصلی شناخت کے بغیر انہیں بھون دینے کے جواز پر امریکی سرکار کو ہی نہیں پورے امریکی سماج کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی حکومت اور سماج 9/11 کے بعد ایک خاص فرقے کے خلاف ضرورت سے زیادہ مشتبہ اور نفرت کی حد تک زہر آلود ہوگیا تھا۔ بیشک اس میں کچھ کمی آئی ہے لیکن جب تک یہ نفرت کا ماحول ختم نہیں ہوتا ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس نفرت کا شکار بے قصور ہندوستانی سکھ یا کوئی بھی فرقہ کب تک جھیلتا رہے گا؟ بھارت کو سختی سے احتجاج درج کرانا چاہئے اور اوبامہ انتظامیہ سے سکھوں کی سلامتی کے پختہ انتظامات کی یقین دہانی لینا چاہئے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اوبامہ سرکار اس تکلیف دہ واقعے پر کیا موقف اختیار کرتی ہے۔ ہم متاثرہ خاندان سے جہاں ان کا دکھ بانٹنا چاہتے ہیں وہیں یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس غیر انسانی و انتہائی دکھ کی گھڑی میں اکیلے نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟