کیا کہنا چاہتے ہیں اڈوانی جی؟


بھاجپا کے سینئرلیڈر شری لال کرشن اڈوانی ایک بہت سلجھے ہوئے تجربہ کار سیاستداں ہیں جو ہر بات نپی تلی کرتے ہیں۔ عام طور پر وہ کوئی بھی بیان بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی پختہ ثبوت کے مقصد سے نہیں دیتے۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اپنے بلاگ پر ایسی بات لکھی ہے جس سے نہ صرف کانگریس ۔ بھاجپا میں ہلچل مچ گئی ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں میں بھی اس پر رد عمل سامنے آیا ہے۔ شری اڈوانی نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ اگلے عام چناؤ کے بعد دیش میں سرکار بھلے ہی کسی بھی اتحاد کی بنے لیکن وزیر اعظم کانگریس یا بھاجپا سے بننے کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے اگلے عام چناؤ میں کانگریس کی سیٹیں 100 سے کم بھی رہ جانے کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔ اپنے بلاگ میں اڈوانی جی نے لکھا ہے کہ کانگریس یا بھاجپا کی حمایت والی سرکار کی قیادت کسی غیر کانگریسی یا غیر بھاجپائی وزیر اعظم کے ذریعے کی جانے کا امکان ہے۔ا یسا ماضی گذشتہ میں بھی ہوا ہے۔ اڈوانی جی کے ان نظریات سے واویلا کھڑا ہونا فطری ہی ہے اس پر حیرت نہیں بھاجپا اور اتحادی پارٹیوں کے بہت سے لیڈر اڈوانی کی رائے زنی سے متفق نظر نہیں آرہے ہیں۔ دراصل انہیں لگتا ہے کہ اڈوانی کے نظریات پارٹی کو کمزور پوزیشن میں ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کا سیاسی مطلب یہ بھی نکالا جارہا ہے کہ اڈوانی چاہتے ہیں کہ اگلے چناؤ کے بعد این ڈی اے کی سرکار بننے کی صورت میں وہ بھاجپا کے علاوہ کسی پارٹی کے نیتا کو پردھان منتری بننا پسندکریں گے۔ اڈوانی جی کوبھاجپا میں کافی حمایت حاصل ہے اور ہوسکتا ہے بھاجپا کے کچھ نیتا ان کے ساتھ آ جائیں۔ دراصل بھاجپا کی بنیادی پریشانی یہ ہے کہ گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی نے بیحد جارحانہ طریقے سے اپنی دعویداری پیش کی ہے۔ پارٹی لیڈر شپ بھی نہ چاہ کر مودی کے دباؤ میں آگئی ہے۔ آر ایس ایس بھی مودی کو آگے بڑھا رہا ہے۔ناپسند کرتے ہوئے بھی سنگھ کو یہ لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کے عہدے کے مضبوط دعویدار نریندر مودی ہی ہوسکتے ہیں اس لئے سنگھ حمایتی صدر نتن گڈکری بھی نریندر مودی کے آگے جھک گئے ہیں۔ پارٹی کے کئی لیڈر مودی کے خلاف ہیں۔ کئی وزیر اعلی بھی مودی کی بالادستی کو پسند نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ بطور منتظم اور لیڈر ان کے کارنامے بھی نریندرمودی سے کم نہیں ہیں۔ دوسری جانب بہت سے بھاجپا لیڈر اڈوانی کے دعوے سے پریشان سے نظر آرہے ہیں۔ کچھ نے تو ان کے نظریات پر ناراضگی تک ظاہر کرڈالی ہے۔ دراصل انہیں لگتا ہے اڈوانی کے نظریات پارٹی کو کمزور ہونے کی طرف اشارہ کرنے والے ہیں۔ بلا شبہ ایک حد تک ایسا بھی ہے ان کے نظریات سے یہ صاف ہے کہ بھاجپا اتنی اہل نہیں کے وہ اپنی لیڈر شپ میں مرکزی اقتدار تک پہنچ سکے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اڈوانی جی اس نتیجے پر کیسے پہنچے کیونکہ ان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کانگریس کا تیز سے ہوتا زوال بھاجپا کو فائدہ پہنچائے گا۔ جس نے کرناٹک کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں اچھی حکومت چلائی ہے۔ اس تجزیئے میں ایک تضاد بھی نظر آتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر کانگریس کا زوال بھاجپا کو فائدہ پہنچائے گا تو پھر وہ اپنی لیڈر شپ میں سرکار کیوں نہیں بنا سکے گی؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کانگریس کے زوال سے بھاجپا کو معمولی فائدہ ہوگا؟ ان سوال کا جواب جو بھی ہو اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو بھاجپا متحد نظر نہیں آتی دوسری اس کے پاس ایسی اتحادی پارٹیوں کی کمی ہے جو اسے مرکزی اقتدار تک پہنچا سکے۔ این ڈی اے کی سرکار کو اقتدار سے بے دخل ہوئے اور اٹل بہاری واجپئی کو سرگرم سیاست سے ہٹے ہوئے تقریباً 8 سال ہوگئے ہیں لیکن بھاجپا میں طاقت کا توازن قائم نہیں ہوپایا۔ واجپئی کے بعد لال کرشن اڈوانی اتفاق رائے سے واحد لیڈر ہوسکتے تھے لیکن سیاست کے تحت انہیں کمزور کردیا گیا۔ اسی درمیان اب پارٹی کے دوسری لائن کے لیڈر کہتے ہیں جو چوٹی پہنچنا چاہتے ہیں اسی درمیان سنگھ نے اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کے لئے کچھ اور لیڈروں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور اس سے لیڈر شپ کی دوڑ کہیں زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ ایسی عمل میں پارٹی بھی اپنی سمت طے نہیں کر پارہی ہے۔ بھاجپا کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اتنا اچھا ماحول ہونے کے باوجود وہ حالات کا فائدہ نہیں اٹھا پارہی ہے اور اندرونی رسہ کشی سے اپنا سارا وقت ضائع کررہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟