انا نے ٹیم توڑ دی لیکن اب آگے کیا؟


پیر کے روز انا ہزارے نے اپنی ٹیم کو توڑنے کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا ہے جن لوک پال کے کام کے لئے ٹیم انا بنائے گئی تھی اور اب کیونکہ سرکار سے اس موضوع پر کوئی بات چیت نہیں ہونی ہے اس لئے ٹیم انا کے نام سے شروع ہوا یہ کام ختم ہوتا ہے اور کمیٹی بھی ختم کی جاتی ہے۔ اب چناوی تیاری شروع ہوگی۔ ٹیم انا کے توڑنے کے فیصلے سے خود انا کے کئی ساتھی ناخوش ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ انا ٹیم توڑنے کا یوں فیصلہ کریں لیکن انا کئی معاملوں سے مایوس تھے اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ سرکار کے سخت رویہ کے چلتے ٹیم انا بے اثر ہوگئی تھی۔ ان کے کرپشن مہم پر مرکزی سرکا ر اور تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں کا رویہ منفی رہا ہے۔ سرکار کا ایک بھی نمائندہ انشن کی جگہ پر ان سے بات کرنے نہیں آیا۔ حال ہی میں لمبی بیماری سے اٹھے انا کی صحت بھی ٹھیک نہیں چل رہی ہے اور اب وہ تحریک چلانے کی حالت میں نہیں لگتے۔ جنتا کا رشتہ اور رد عمل بھی ان کے لئے حوصلہ افزا نہیں رہا۔ انا نے دکھی دل سے کہا مجھے بھی اب یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ یہ سرکار کرپشن کے خلاف قانون نہیں بنائے گی۔ کسانوں ،مزدوروں اور رائٹ ٹو ریجیکٹ قانون نہیں جائے گی۔ میرا کہنا ہے کہ ہمارے دیش کی پارلیمنٹ دو باتوں پر متحد ضرور ہے ساری سیاسی پارٹیوں کے لوگ اس معاملے پر ساتھ ہیں پہلا یہ کرپشن کے خلاف سخت قانون بنانے سے ہر پارٹی ڈرتی ہے اس لئے سب مخالفت کررہے ہیں لوک پال بل نہ پاس ہو سارے ایم پی اپنی تنخواہ بڑھانے کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ اب جنتا کے سامنے سیاسی متبادل رکھنا ہوگا۔ اب جب انا نے اپنا انشن ختم کردیا ہے اور اپنی ٹیم بھی توڑ دی ہے تو پوری طرح سے ٹھنڈے دماغ سے پورے واقعات کا پوسٹ مارٹم کرسکتے ہیں۔ انہیں وہ اسباب تلاش کرنے ہوں گے جن کے چلتے ان کے تئیں جنتا کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ انہیں اپنی ٹیم کی کارکردگی پر بھی غور کرنا ہوگا جہاں تک سیاسی متبادل پیش کرنے کا سوال ہے انا کا آگے کا راستہ بھی آسان نہیں ہے۔ انا کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنے پڑ سکتا ہے۔ دیش میں کبھی بھی ایک اشو پر چناؤ نہیں لڑا جاتا۔ 
ٹیم انا کچھ اشوز کو لیکر چل رہی تھی ایسے میں ذات ، پات سے کیسے نمٹے گی؟ انا خود کہہ چکے ہیں وہ تو بلدیاتی چناؤ بھی نہیں جیت سکتے ایسے میں لوک سبھا کی کتنی سیٹ جتا پائیں گے۔ اگر دو چار جیت بھی لیں تو اس سے کیا تبدیلی آسکے گی؟ چناؤ لڑنے کے لائق امیدوار چاہئیں امیدواروں کا انتخاب بھی بڑا کام ہوتا ہے۔ سیاسی تنظیم بنانے یا چناؤ لڑنے کے لئے پیسہ ذرائع چاہئیں ،یہ کہاں سے آئیں گے؟ سیاست میں کامیابی کے لئے مضبوط تنظیم اور کامریڈ ورکروں کی فوج کھڑی کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں کئی لوگ ٹیم انا کی سیاسی مہم سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھ سکتے ہیں۔ لوک سبھا امیدوار جیسے تجربے جے پرکاش تحریک کے دنوں میں بھی ہوئے تھے لیکن وہ بہت کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ اس لئے کرپشن کے خلاف تحریک تو سیاسی متبادل کی شکل میں آگے بڑھانا آسان نہیں ہوگا۔ ویسے یہ چنوتی اکیلی اس تحریک کی نہیں بلکہ دیش کے جمہوری مستقبل کی بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!