اولمپک کا مزہ لینا ہے تو کھیل کودیکھو کھلاڑی کو نہیں


اس میں کوئی شبہ نہیں ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے اگر کوئی ہندوستانی کھلاڑی اولمپک میں کوئی میڈل جیتے تو ہمارا سر فخر سے اٹھ جاتا ہے اور ہماری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ دوسری طرف جب نامی گرامی کھلاڑی مقابلے سے باہر ہوجاتے ہیں تو ہمارے اندر مایوسی پیدا ہوجاتی ہے۔ جیتنا اچھا لگتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر کھلاڑی جیت نہیں سکتا۔ اولمپک میں فائنل میں پہنچنا یا آخر 16 میں پہنچنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ اولمپک میں مقابلہ اتنا تگڑا ہوتا ہے کہ ایک ایک پوائنٹ پر ہار جیت ہوتی ہے۔ راؤنڈ درراؤنڈ میڈل کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے۔ ہمیں ابھینیو بندرا سے بہت امید تھی اور وجے کمار کا اس اولمپک سے پہلے کبھی نام تک نہیں سنا تھا لیکن ہوا کیا؟ ابھینیو فائنل راؤنڈ تک نہیں پہنچ سکے اور وجے کمار دنیا کے نمبردو شوٹر بن کر چاندی کا میڈل لینے میں کامیاب رہے۔ ابھینیو بندرا کے حق میں یہ بات فٹ بیٹھتی ہے کے وہ ہمیشہ لو پروفائل رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی ٹی وی پر زیادہ نظر نہیں آتے ،انہوں نے کوئی زیادہ اشتہار نہیں کئے۔ اولمپک سے باہر ہوچکے بندرا اس ناکامی سے مایوس نہیں اور اب وہ آگے اور زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔ 10 میٹر ایئر رائفل شوٹنگ میں مقابلہ اتنا سخت تھا کہ ابھینیو 600 پوائنٹ میں سے594 پوائنٹ لے کر بھی 16 مقام پررہے۔ ایک راؤنڈ ہار جیت کا سبب بن سکتا ہے۔ گگن نارنگ نے اسی مقابلے میں فائنل میں 103.1 پوائنٹ بنائے اور وہ تیسرے مقام پر رہے۔ نارنگ کی اچھی شروعات تھی اور پہلے شارٹ میں 10.7 پوائنٹ بنائے لیکن اگلے شارٹ میں وہ 9.7 پوائنٹ ہی بنا پائے۔ اس کے بعد نارنگ اگلے چار شارٹ میں10.4,10.7,10.4 اور 10.6پوائنٹ بناتے ہوئے سلور میڈل کی دوڑ میں شامل ہوگئے لیکن اس کے بعد وہ تھوڑا پیچھے کھسک گئے اور اب ان کا مقابلہ کانسے کے میڈل کے لئے چین کے وانگ تاؤتے کے ساتھ ہوا جو آخر کار 700.4 کے ساتھ چوتھے مقام پر رہے۔ شوٹنگ میں کبھی کبھی کھلاڑی تھوڑا خراب شارٹ مار دیتا ہے تو آپ کو فائدہ مل جاتا ہے۔ یہ فائدہ اس کی خراب کارکردگی سے ملتا ہے۔ اس اولمپک میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ خراب ریفرنگ کی وجہ سے بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ بھارتیہ مکے باز سمت سانگ وان خراب امپائرنگ کی وجہ سے ہار گئے۔ میں نے ان کی فائٹ دیکھی تھی مردوں کے لائٹ ہیوی ویٹ زمرے میں برازیل کے مکے باز کلوٹین ٹینو کے خلاف فائٹ میں ججوں کا اسکورنگ کا طریقہ صاف طور پر سانگ وان کے حق میں نہیں رہاکیونکہ دوسرے اور تیسرے راؤنڈ میں دبدبہ بنائے رکھنے کے باوجود انہیں ٹھیک نمبر نہیں دئے گئے اور جیتتی ہوئی لڑائی کوہار میں بدل دیا گیا۔ باکسنگ میں ججوں کی اسکورنگ پر بھاری تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ اکیلے سانگ وان ہی نہیں جن سے نا انصافی ہوئی۔ ایران کے ہیوی ویٹ باکسر علی مظاہری نے بھی شکایت درج کرائی۔ بدھوار کو دوسرے دور میں کیوبا کے گومیز کے خلاف ہارنے کے بعد ججوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ جان بوجھ کر انہیں ہرایا گیا۔ ایرانی مکے باز کو گومیز کو پکڑ کر کھڑا رہنے کے سبب تین وارننگ کے بعد ڈس کوالیفائی کردیا گیا۔ مظاہری کا الزام ہے کہ یہ میچ فکس تھا۔ مظاہری نے سرکاری طور پر فیصلہ سنائے جانے سے پہلے ہیئررنگ چھوڑ دی تھی۔ کھیل ہو اور فکسنگ کاالزام نہ لگے بہت مشکل ہے۔ لندن 2012 اولمپک بھی فکسنگ کے سائے میں آگیا ہے۔ اولمپک کے بیٹ منٹن میچ میں فکسنگ کے ملزم8 کھلاڑیوں کو کھیلوں سے باہر کردیا گیا ۔ ان میں سے 4 ساؤتھ کوریا سے ہیں جبکہ 2 انڈونیشیا اور 2 چین سے ہیں۔ ان کھلاڑیوں پر اگلے راؤنڈ میں ممکنہ ڈرا حاصل کرنے کے لئے جان بوجھ کر ہارنے اور صلاحیت کے مطابق کھیل نہ دکھانے کا الزام ہے۔ فٹبال میں اسپین نہ صرف ورلڈ چمپئن ہے بلکہ حال ہی میں ہوئی وومن چمپئن شپ میں بھی اس نے خطاب جیتا۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اسپین جو اولپک گولڈ کا مضبوط دعویدار مانا جارہا تھا اور جس کا نام کبھی فٹبال میں اتنا سنا نہیں گیا ہو، سے ایک گول سے ہار کر اولمپک کھیلوں کی مرد فٹبال مقابلے سے باہر ہوگئی۔ ورلڈ کپ2010ء اور یو رو چمپئن شپ2012ء ونر اسپین ایک ہی وقت میں تین بڑے خطاب جیتنے کا خواب دیکھ کر میدان میں اتراتھا۔ میری سمجھ میں سائینا نہوال نے کمال کردیا ہے۔ بیشک وہ سیمی فائنل میں چین کی کھلاڑی چیانگ بانگ سے ہار گئی لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ ساری دنیا میں اس وقت مہلا بیٹ منٹن میں بھی چین کا دبدبہ ہے۔ 
سیمی فائنل میں چینی کھلاڑی ہیں اور اکیلی بھارت کی سائینا ہے یعنی ساری دنیا میں چین کا اگر کوئی مقابلہ کرہی ہے تو وہ سائینا ہے وہ ہاری بھی تو ورلڈ نمبر ون سے۔ اب دیکھیں کے وہ کانسے کا میڈل جیت پاتی ہے یا نہیں لیکن میری رائے میں تو وہ ایک طرح سے جیت ہی چکی ہے۔ اسی طرح ٹاپ سیٹ ملیشیا کے کیلی یونگ وئی کے خلاف کواٹر فائنل میچ میں پی کشپ میچ ہار کر بھی لوگوں کا دل جیت گئے۔ وجیندر سنگھ سے دیش کو بہت امیدیں ہیں ۔اولمپک میں کبھی کبھی ایسے بھی کھلاڑی آتے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں ایسا ہی ایک نام ہے امریکی تیراک مائیکل فریڈ فیلپس ۔ اس بڑی تیراک شخصیت نے ایک الگ ہی تاریخ بنائی ہے ۔27 سال کے اس امریکی تیراک اولمپک کھیلوں میں 19 میڈل جیتنے والا دنیا کا اکیلا شخص بن گیا ہے۔2004ء میں ایتھنس میں اس نے 6گولڈ، 2 کانسے جیتے تھے۔ اس کی باہں اس کی لمبائی سے بھی زیادہ 6'7'' ہے۔ میں شخصی طور سے ہندوستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی سے زیادہ مایوس نہیں۔ اس کی دو وجہ ہیں پہلی کے ہم ان سے ضرورت سے زیادہ امیدیں لگائے ہوئے تھے اور دوسری مقابلہ بہت زیادہ سخت ہے۔ ہمیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے اور بہتر تیاری کرنی چاہئے۔ کچھ دیش ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ مثال کے طور پر اولمپک تاریخ میں وینزویلا نے 44 برس بعد گولڈ میڈل جیتا ہے۔ اس کے مرد تلوار باز روبین گاسکون نے دیش کو یہ کامیابی دلائی۔ اب میں جب اولمپک دیکھتا ہوں تو میں بھول جاتا ہوں کہ میں ایک ہندوستانی ہوں ۔ میں صرف کھیل کو دیکھتا ہوں کونسے دیش کا کھلاڑی ہے یہ نہیں دیکھتا۔ ہمیں اپنے آپ کو دیش سے اوپر ہوکر اولمپک کا مزہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ کیا ہم بیجنگ سے آگے بڑھ سکیں گے؟ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟