کیا سونیا طے حکمت عملی کے تحت اڈوانی پر بھڑکیں؟


پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ہنگامے سے شروع ہوا۔ 4 سال پہلے یوپی اےI- سرکار کے عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران ممبران کی خریدو فروخت کے الزامات کا بھوت بدھوار کو پھر زندہ ہوا تو لوک سبھا میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ آسام میں مرکزی سرکار کی ناکامی کا ذکر کرتے کرتے بھاجپا لیڈر لال کرشن اڈوانی نے ممبران کی خریدو فروخت کا حوالہ دیا اور کہا یوپی اے II- سرکار ناجائز ہے۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ کانگری صدر سونیا گاندھی غصے میں بھڑک گئیں اور انہوں نے اڈوانی کو اپنا بیان واپس لینے کے لئے کہا۔ اس کے بعد اڈوانی نے اپنے الفاظ واپس لینے کا اعلان کیا۔ حالانکہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے صفائی بھی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا تبصرہ یوپی اے II- سرکار کے بارے میں نہیں بلکہ یوپی اےI- سرکار کے وقت میں اعتماد کا ووٹ کی تحریک کے دوران ہوئے واقعہ کے سلسلہ میں تھا۔ کل تک اپوزیشن مان کر چل رہی تھی کہ پرنب مکھرجی کے صدر بننے کے بعد حکمراں فریق میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو سرکار کا بچاؤ کرسکے لیکن بدھوار کو سونیا گاندھی کے مشتعل تیور دیکھنے کے بعد ان کی امیدوں کو ضرور جھٹکا لگا ہوگا۔ جس طرح سونیا گاندھی گرجیں اس سے تو اپوزیشن تو کیا حکمراں پارٹی کے ممبران بھی حیران رہ گئے۔ حکمراں فریق کا حیرت میں پڑنا فطری ہی تھا کیونکہ یوپی اے کے 2004 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے8 سال کی میعاد میں سونیا گاندھی کو اتنا جارحانہ انداز میں کبھی پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ اب تک ایسے بحران کا سامنا یا سرکار کا بچاؤ پرنب دا کیا کرتے تھے اس لئے انہیں یوپی اے کا سنکٹ موچک مانا جاتا تھا۔لگتا ہے کہ سونیا کے بھڑکنے کے پیچھے سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ سونیا نے اپوزیشن کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سرکار کو کمزور نہ سمجھا جائے یا یہ نہ مانا جائے کہ اپوزیشن منمانے طریقے سے سرکار پر دباؤ بنا سکتا ہے۔ سونیا کے تیور کو دیکھ کر حکمراں فریق میں جوش آگیا ہے اور حکمت عملی یہ بنی ہے کہ بڑی تعداد میں پارلیمنٹ میں موجود رہ کر حکمراں فریق کے اس تیور کو بنائے رکھیں گے اور اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے کے لئے وزیر سے لیکر پارلیمنٹ تک ایک پوری تیاری کے ساتھ ایوان میں آئیں گے۔ ویسے اسے ایک اور اشارہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ سونیا کے تیوروں کو بھاجپا پارلیمنٹ میں سدبھاونا ختم کرنے والے قدم کے طور پردیکھ رہی ہے۔ سونیا کے غصے بھرے تیوروں سے بھاجپا کے نیتا بھی حیران ہیں اور بھاجپا نیتاؤں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ سونیا گاندھی کوبھاجپا نیتا لال کرشن اڈوانی کے تبصرے پر اتنا غصہ کیوں آیا؟ بھاجپا نیتا مان رہے ہیں کہ اڈوانی نے کوئی ایسا غیر پارلیمانی لفظ نہیں کہا تھا جس کے چلتے سونیا گاندھی اتنی بھڑک اٹھیں۔ اس واقعے کا بھاجپا میں اچھا اثر نہیں ہوا اور اس کا اثر اقتدار کے آنے والے دنوں میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ نئے وزیر داخلہ سشیل کمارشندے حال ہی میں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج سے ملنے گئے تھے اور ان سے تعاون کی بات کہی تھی لیکن بدھوار کو سونیا کے تیوروں نے سشیل کمار شندے کے مشن تعاون پر پانی پھیر دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟