پاک ٹی وی چینل میں ہندو کے دھرم پریورتن کا لائیو کوریج


پاکستان میں بچے ہوئے ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی اکثر خبریںآتی رہتی ہیں۔ گذشتہ دنوں ہندو لڑکیوں سے زبردستی اسلام قبول کروانے کی خبر نے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا لیکن اب ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے تب ساری حدیں پار کردیں جب پاکستان کے ایک متنازعہ ٹی وی اینکر نے ایک ہندو لڑکے سے اسلام قبول کرنے کا لائیو کوریج دکھا دیا۔ اس واقعے سے جہاں دیش کے اصلاح پسند لوگوں میں کھلبلی مچ گئی ہے وہیں اقلیتی فرقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس ہندو لڑکے کی پہچان سنیل کے طور پر ہوئی ہے۔ پاکستان کے ایک سرکردہ ٹی وی چینل اے آر وائی ڈیجیٹل پر مایا خان کی میزبانی میں رمضان پر سیدھے ٹیلی کاسٹ میں ایک خاص شو میں سنیل کو مولانا مفتی محمد اکمل نے اسلام قبول کروایا۔ منگل کو ٹیلی کاسٹ شو کے دوران بچوں اور بڑوں کے ایک گروپ میں بیٹھے سنیل نے کہا کہ انسانی حقوق رضاکار انصار برنی کی غیر سرکاری تنظیم کے لئے کام کرتے ہوئے اس نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولانا اکمل کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا دو برس پہلے میں نے رمضان میں روزہ رکھا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے لئے مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ٹی وی چینل نے اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا۔ اس قصے پر پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے لکھا ہے کہ اس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان میں اسلام مذہب کی بہ نسبت دیگر مذاہب کو برابری کا درجہ نہیں ملتا ہے۔ اینکر مایا خان نے شو کے دوران سنیل کا نیا نام محمد عبداللہ رکھے جانے کا بھی اعلان کیا۔ دیش کے انسانی حقوق رضاکار انصار برنی نے کہا کہ کسی ٹی وی شو میں حصہ لینے کے سبب انہوں نے اپنے بھائی کو این جی او سے ہٹا دیا ہے۔ اس لائیو ٹیلی کاسٹ پر پاکستانی میڈیا نے بھی اس شو کی تنقید کی ہے۔ پاکستانی اخبار ڈان نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ دیش کا الیکٹرانک میڈیا کسی بھی چیز کو چٹپٹا بنانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن یہ تو حد ہی ہوگئی ہے کہ اب وہ مذہب کے نام پر کھلواڑ کرنے لگا ہے۔ کسی کے جذبات کا مذاق بنانے لگا ہے۔ اس واقعے کے ٹیلی کاسٹ سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ میڈیا نے اپنے کاروباری مقاصد کی تکمیل کے لئے اخلاقی اقدار اور نظریات میں کھلا پن اور عام علم کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ایک دوسرے اخبار ’دی ایکسپریس ٹریبیون‘ کے ادارتی صفحے پر مدیر عمر قریشی نے کہا کہ مایا خان کا شو ٹی وی ریٹنگ بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس طرح کے شو کبھی بھی کسی کے تبدیلی مذہب کا ٹیلی کاسٹ نہیں کرتے یہ اصولوں کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ امتیازی برتاؤ ہے۔ ہندو لڑکے سنیل کے مذہب تبدیل کرنے کے قصے سے پہلے کئی ایسے ہی قصے ہو چکے ہیں۔ فروری 2012 ء میں 19 سالہ لڑکی ٹوئینکل کماری کی مثال پیش کی گئی۔ ٹوئینکل کماری کا اغوا کیا گیا پھر زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا، پھر ایک پاکستانی مسلمان لڑکے سے اس کی زبردستی شادی کی گئی۔ اس کے کچھ دن بعد ایک عیسائی خاتون سے بھی یہ ہی رویہ اپنایاگیا۔ پاکستان میں اقلیتوں کی کوئی سکیورٹی نہیں ہے حالانکہ کہنے کو وہاں ایک چنی ہوئی جمہوری سرکار ہے لیکن مجال ہے وہ وہاں کے ملاؤں کے سامنے اپنی زبان کھول سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!