ریلوے کا نیا ریکارڈ ایک دن میں تین حادثے


پیر کا دن بھارتیہ ریلوے کے لئے سیاہ دن مانا جائے تو یہ کہناشاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف تو پورا شمالی بھارت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہیں پیر کے روز ایک ساتھ تین ریل حادثوں نے پورے دیش کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ریلوے نے اس سے ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کردیا ہے۔ تین ریل حادثوں میں تقریباً40 لوگوں کی موت ہوگئی۔ سب سے دہلانے والا حادثہ تاملناڈو ایکسپریس میں ہوا جب اچانک اس میں خوفناک آگ لگ گئی اور ایک سلیپر ڈبے میں میٹھی نیند سورہے 32 مسافر پلک جھپکتے ہی جل گئے۔ نئی دہلی سے چنئی جارہی تاملناڈو ایکسپریس کی بوگی نمبرS11 میں پیر کی صبح آگ اس وقت لگی جب 110 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ٹرین دوڑ رہی تھی۔ یہ ٹرین تین گھنٹے میں اپنی منزل پر پہنچنے والی تھی۔ آگ کیسے لگی اسکو لیکر الگ الگ باتیں سامنے آئی ہیں۔ ریل منتری مکل رائے کے مطابق انہیں ڈویژنل ریلوے منیجر نے بتایا کہ ٹرین دھماکہ ہواتھا۔ وزیر موصوف کے مطابق کسی مسافر کے سامان میں ایسا کوئی کیمیاوی سامان رکھا ہوا تھا جس کے سبب آگ سے پلک جھپکتے ہی ڈبہ شعلوں میں تبدیل ہوگیا اور جل گیا۔ مکل رائے نے کیا اپنی جان بچانے کیلئے یہ پہلو سامنے رکھا ہے یا یہ تلخ سچائی ہے۔ اس کا پتہ تو جانچ کے بعدہی لگے گا۔ اگر یہ صحیح ہے تو نہ تو ہم ڈبے کی بجلی کے نظام کے شارٹ سرکٹ پر انگلی اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی ریلوے کے اس داؤ پر سوال داغ سکتے ہیں کہ سلیپروں کے بنانے میں آگ سے بچاؤ والے سامان کا استعمال کیوں نہیں کیا جارہا ہے تاکہ آگ لگنے پر اس کے پھیلنے کو کم سے کم روکا جا سکے۔ مکل رائے نے حال ہی میں عہدہ سنبھالا ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ مسافروں کی سلامتی ان کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ ریلوے وزارت کو ممتا کے عہد میں کافی نقصان پہنچا ہے۔ اب مکل رائے سے بھی بہت امید ہے کہ بغیر جانچ کے اس طرح کی قیاس آرائیاں کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔ سچائی چاہے کتنی بھی تلخ کیوں نہ ہو اس سے بھاگنے کی کوشش مستقبل کو اور زیادہ خطرناک بنا دیتی ہے۔ تاملناڈو ایکسپریس کا یہ دل دہلادینے والے آگ سانحہ کے پیچھے اسی دن دو اور حادثوں کی طرف جنتا کی توجہ کم ہی جاسکی۔ اسی دن پنجاب اور ہریانہ میں بھی ریل سے دو حادثے ہوئے۔ ان میں چار اسکولی بچوں سمیت 6 لوگوں کی جان گئی۔ امرتسر کے قریب پیسنجر ٹرین نے ایک اسکولی بس کو اپنی زد میں لے لیا تو بہادر گڑھ کے پاس ایک ٹرک ٹرین سے ٹکرا گیا۔ ریل منتری ممکن ہے ان حادثوں کے لئے بس اور ٹرک ڈرائیور کی لاپرواہی کو ہی ذمہ دار بتائیں گے کیونکہ وہ ٹرین کے راستے پر آگئے تھے۔شاید کوئی اس پر یقین کرنا چاہے کہ ڈیڑھ سو برس سے بھی پرانی بھارتیہ ریل آج بھی کیوں ہزاروں غیر محفوظ مسافروں کا بوجھ ڈھوتی دکھائی دے رہی ہے؟ عام طور پر یہ غیر محفوظ حادثے چھوٹے شہروں یا قصبوں کے پاس ہوتے ہیں جس میں کراسنگ پر گیٹ تک نہیں ہوتا اور ریل لائن کو پار کرنے والی گاڑیوں اور انسانوں کو لیکرتیزی سے آرہی ٹرین کو وارننگ دے سکے۔وہاں کوئی سگنل نہیں ہوتا۔ ریل وزارت کو اپنے گریباں میں جھانکناچاہئے اور سکیورٹی اقدامات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے بہ نسبت دوسروں کو قصوروار ٹھہرانے کے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!