تاریکی میں ڈوبا شمالی بھارت گرڈ فیل ہونے کا ذمہ دار کون؟


ایسی بہت سی خدمات ہوتی ہیں جسے ہم مان کر چلتے ہیں یعنی ہم ٹیک ان فار گرانٹڈمان کرچلتے ہیں۔ وہ اچانک غائب ہوجائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے ہم ان کے کتنے عادی ہوچکے ہیں اور بغیر اس کے ہماری زندگی کا گزارا نہیں ہوسکتا۔ اور وہ کچھ وقفے کے لئے رک سا جاتا ہے ۔ ایسے ہی زمرے میں بجلی آتی ہے۔ پیر اور کے روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب دہلی سمیت 9 ریاستوں میں گھنٹوں بجلی غائب رہی اس کی وجہ ناردن گرڈ فیل ہوجانے تھا۔ ایسے ہی منگل کے روز اچانک تین گرڈ کے فیل ہوجانے سے22 ریاستوں میں بجلی کا سنکٹ کھڑا ہوگیا جس سے لوگوں میں ہائے توبہ مچ گئی۔ 8ریاستوں میں 15 گھنٹوں تک عام زندگی متاثر رہی۔ ناردرن گرڈ فیل ہونے سے دہلی، ہریانہ، پنجاب، جموں و کشمیر، ہماچل، اتراکھنڈ، اترپردیش ،راجستھان اور چندی گڑھ میں تاریکی چھا گئی اور صبح میں دہلی میں کئی گھنٹوں تک میٹرو ریل اور ٹرینیں ٹھپ رہیں کیونکہ وہاں بجلی کی سپلائی بند ہوگئی۔ 300 ٹرینوں میں تاخیر ہوئی جبکہ کروڑوں مسافروں کو بھاری پریشانی ہوئی۔ ناردرن گرڈ میں ایسی خرابی دس سال پہلے بھی آئی تھی اس سے پہلے 8 جنوری 2002 کو یہ گرڈ فیل ہوا تھا۔ دیش میں پانچ بجلی گرڈ ہیں۔ ناردن،ایسٹرن،نارتھ ایسٹرن، ساؤتھ ، ویسٹ شامل ہیں۔ ان میں ساؤتھ گرڈ کے علاوہ سبھی گرڈ آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اس کا کنٹرول پاور گرڈ کارپوریشن کے ہاتھ میں ہے اسکے پاس قریب 95 ہزار سرکٹ کلو میٹر کی ٹرانسمیشن لائن ہے۔ بجلی بنانے والی سرکاری کمپنی این ٹی سی پی کے مطابق گرڈ کے فیل ہونے سے6بجلی گھروں سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار ٹھپ ہوئی۔ ان میں ریہند میں 2500 میگاواٹ، سنگرولی میں 2000، دادری میں 1820، اوریہ میں 652 اورآرا میں 413 ، بدر پور میں 705 میگاواٹ بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی۔ ناردن گرڈ فیل ہونے سے راجستھان کے نیوکلیائی بجلی گھر کی پانچ یونٹیں ٹھپ ہوگئیں۔ ان میں قریب 1100 میگاواٹ بجلی بنتی ہے۔ کیا ہوتا ہے گرڈ فیل ہونا؟ پاور سینٹر سے لوگوں کے گھروں تک بجلی کی سپلائی ایک یقینی فریکوئنسی پر کی جاتی ہے۔ جب یہ سپلائی فریکوئنسی جنرل سے بہت زیادہ یا کم ہوجاتی ہے تو تب گرڈ فیل ہوجاتا ہے۔ نارتھ گرڈ کی فریکوئنسی 48.5 سے لیکر 50.2 ہارٹس کے درمیان ہے۔اس رینج میں رہنے پر معمولی اتار چڑھاؤ کے باوجودگرڈ چلتا رہتا ہے ۔ گرڈ میں ہر ایک ریاست کو بجلی کا کوٹا ہوتا ہے۔ فریکوئنسی کم ہونے پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کونسی ریاست زیادہ بجلی کھپت کررہی ہے۔ اسے وارننگ دے کر منع کیا جاتا ہے۔ پیر کو گرڈ فیل ہونے کے لئے ریاستوں کے غیر ذمہ دارانہ برتاؤ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ ریاستیں نہ تو ٹرانسمیشن لائن بچھانے کیلئے مرکزی اسکیم لاگو کرنے میں تیزی دکھا رہی ہیں اور نہ ہی تقسیم میں ہونے والے نفع نقصان کو کم کرنے میں مناسب مدد کررہی ہیں۔ نیشنل گرڈ سے اوور ڈرا کرنے والے کھلنائک ریاستوں میں اترپردیش سب سے آگے تھا۔ یوپی پاور آفیرس کے جنرل سکریٹری شیلندر دوبے نے بتایا کہ ریاست میں بجلی کی مانگ 9 ہزار میگاواٹ ہے اور پیداوار کافی کم ہے۔ ایسے میں کافی وقت سے ریاست نیشنل گرڈ سے اوور ڈرا کررہی ہے جو کبھی کبھی 2500 میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ جتنی بجلی کی مانگ ہے اتنی سپلائی نہیں ہے۔ جب تک بجلی کی پیداوار نہیں بڑھتی تب تک سبھی ریاستوں کو تھوڑا ڈسپلن میں رہ کر کام لینا ہوگا۔ فریکوئنسی درست رکھنے کیلئے علاقائی گرڈ کا اپنا لوڈ ڈسپیج سینٹر ہوتا ہے جہاں کمپیوٹروں سے الیکٹرانک طریقوں سے ہر ایک پاور پلانٹ سے آنے والی بجلی اور ہر ایک ریاست کے ذریعے لی جانے والی بجلی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ گرڈ میں ہر ایک ریاست کا بجلی کا کوٹہ مقرر ہوتا ہے۔ اس کنٹرول اور تقسیم سسٹم کو سختی سے لاگو کیا جانا چاہئے۔ ہر ایک ریاست کو اپنے مقررہ کوٹے کے حساب سے ہی بجلی ملنی چاہئے۔ کمپیوٹر کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے تو اس میں کئی بارآف وائٹ سختی سے لاگو ہوتبھی سسٹم صحیح رہ سکتا ہے۔ ویسے تو حل بجلی پیداوار بڑھانے سے ہی ہوگا۔ مانگ تو دن بدن بڑھتی جائے گی۔ جہاں ایک طرف مرکز کا سوال ہے تو مرکزی وزیر برقیات سشیل کمار شندے کو پاور فیلیئر کے لئے الٹا ترقی دے دی گئی اور انہیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!