مایاوتی کی مورتیاں توڑنے کی جگہ ترقی و قانونی نظام و پائیدار کھیتی پر زیادہ دھیان دیں


دکھ کی بات ہے کہ لکھنؤکے گومتی نگر علاقے میں واقع امبیڈکر پارک میں ریاست کی سابق وزیر اعلی و بسپا چیف مایاوتی کی مورتی توڑنے کا قصہ سامنے آیا ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو نے اسے ریاست کے قانون و نظام بگاڑنے کی سازش قراردیتے ہوئے مورتی کو فوراً درست کرنے کا حکم دے کر حالات کو مزید بگڑنے سے بچا لیا۔ ایک سینئر سرکاری افسر نے سماجی تبدیلی استھل پر مقرر سکیورٹی گارڈوں کے حوالے سے بتایا کہ دوپہر بعد چار یا چھ نوجوان موٹر سائیکل پر وہاں پہنچے اور بڑے ہتھوڑے سے مورتی پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ نامعلوم سی تنظیم نو نرمان سینا نے اس واردات کو انجام دینے سے کچھ گھنٹے پہلے ہی باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے دھمکی دی تھی کہ اگر72 گھنٹے میں لکھنؤ اور نوئیڈا سے مایاوتی کی مورتیاں نہیں ہٹائی گئیں تو انہیں توڑ دیں گے۔ بہرحال مورتی توڑنے والے گرفتار ہوچکے ہیں لیکن یہ واقعہ ریاست میں دلتوں کے خلاف پھیلی نفرت و غصے کی ایک مثال ہے۔اس لئے ضروری ہے آگے بھی ہوشیار رہا جائے۔ مایاوتی نے اترپردیش سے دلتوں میں ایک سوابھیمان پیدا کیا جو صدیوں سے سماج میں دبے کچلے رہے ہیں۔ بہن جی نے اس کے لئے ذات پرستی کی سیاست کی اور جگہ جگہ ڈاکٹر امبیڈکر ،کانشی رام کی مورتیاں لگوادیں۔ پریورتن استھل اور پارک بنوائے جہاں دلت مہا پرشوں کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے چناؤ نشان ہاتھیوں کی مورتیاں بھی نصب کروائیں۔ اپنے عہد میں مایاوتی نے ان پر سینکڑوں کروڑوں روپے خرچ کئے یہ پروگرام کافی لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ اس میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں جنتا کے پیسے کی بربادی لگی اور شاید ایسے بھی لوگ تھے جنہیں دلتوں کا اقتدار پانا اور اس کا یوں پردہ فاش کرنا برا لگا۔ جن لوگوں کی یہ دلیل تھی کہ جنتا کے پیسے کا بہتر استعمال ترقیاتی کاموں میں ہوسکتا ہے وہ اس بات سے بھی متفق ہوں گے کہ ایک بار ان مجسموں یا یادگاروں کے بن جانے کے بعد ہٹانا یا ان پر سیاسی کرن صرف ایک بیکار کی چیز ہے بلکہ اس سے ریاست فضول اشوز پر مشتعل اور لڑائی جھگڑے کی سیاست میں پھنس جائے گا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کے درمیان چھتیس کا آنکڑا رہا ہے۔ سپا اور بسپا کے حمایتیوں کے درمیان کچھ طبقاتی اختلاف ہے جبکہ کچھ حد تک یہ دشمنی میں بدل رہی ہے ۔ یہ ایک سچائی ہے کہ سپا لیڈروں نے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ مایاوتی اور ان کے ہاتھیوں کی مورتیاں ہٹوادیں گے۔ حالانکہ اکھلیش یادو حکومت نے اب تک کہیں بھی ایسا ہونے نہیں دیا۔ مگر جب پارٹی کے بڑے نیتا اپنے کسی حریف کے بارے میں نفرت کا ماحول بناتے ہیں تب لکھنؤ کے امبیڈکر پارک جیسے واقعات کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ مورتی توڑنے والا شخص امت جانی اپنے آپ کو بھلے ہی خودساختہ یوپی نو نرمان سینا کا ممبر بتاتا ہے مگر وہ سپا نیتاؤں سے کہیں نہ کہیں ضرور وابستہ رہا ہے۔ اترپردیش کافی طویل عرصے تک ذات پات کے جھگڑوں اور مشتعل سیاست کے دور سے گزرا ہے۔اب اکھلیش سرکار کو اس سے بچنا چاہئے اور پردیش میں اچھا ماحول ، پائیدار کھیتی اور ترقی پر زیادہ توجہ دینی چاہئے نہ کے اس توڑ پھوڑ اور ذات پات کی لڑائی اور بدلے کا جذبہ رکھنا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟