اگر میں قصوروار ہوں تو مجھے پھانسی پر لٹکا دو:نریندر مودی
بھاجپا کے ہونے والے وزیراعظم کے امیدوار اور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی پچھلے کچھ عرصے سے اخباروں و ٹی وی کی سرخیوں میں پہلے سے زیادہ چھائے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی آہستہ آہستہ اپنے نئے سیاسی کردار کے لئے تیار ہورہے ہیں۔ اسی کے تحت انہوں نے اپنی سیاست میں گجرات کے 2002ء فرقہ وارانہ فسادات کے دھبے کو دھونے کیلئے کوششیں تیز کردی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب ان کا چہرہ کسی طرح سے پورے دیش میں قابل قبول ہوجائے۔ دہلی سے شائع ہونے والے ایک اردو کے ہفت روزہ اخبار ’نئی دنیا‘ کے مدیر اور سماج وادی پارٹی کے سابق راجیہ سبھا ایم پی شاہد صدیقی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں مودی نے تمام سوالوں کا جواب دیا یا صفائی دی جو پچھلے 10برسوں سے ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ مودی نے ایک بار پھر ان فسادات کو لیکر معافی مانگنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی مانگ کا اب کوئی مطلب نہیں ہے۔ گودھرا کانڈ کے بعد ہوئے فسادات کے بارے میں انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر وہ ان دنگوں میں قصوروار پائے جائیں تو وہ پھانسی پر چڑھنے کوتیار ہیں لیکن وہ گجرات دنگوں کے لئے دیش سے معافی مانگنے کو تیار نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ 1984ء میں ہوئے سکھ کش دنگوں کے لئے کانگریس چیف سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سکھ سماج اور دیش سے معافی مانگ لی ہے تو وہ گجرات دنگوں کے لئے اسی طرح کی معافی کیوں نہیں مانگتے؟ اس سوال پر مودی نے یہ ہی کہا کہ جب انہوں نے اور ان کی سرکار نے دنگوں کی آگ بھڑکانے میں کوئی رول نہیں نبھایا تو معافی کیوں مانگیں؟ مودی نے چیلنج بھرے لہجے میں کہا کہ اگر ان کارول دنگوں کیلئے گنہگار مانا جائے تو وہ معافی ہی نہیں چاہیں گے بلکہ پھانسی کا پھندہ بھی چاہیں گے۔ مودی نے منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی معافی مانگنے کی سیاسی چال پر تلخ ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ وہ معافی مانگنے کی پاکھنڈی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ شری نریندر مودی سے سوال کیا جاسکتا ہے کیا سونیا ،راجیو اور منموہن سنگھ کے ذریعے 84 کے دنگوں کے لئے یہ مطلب نکلتا ہے کہ وہ خود تشدد برپا کرنے والوں میں شامل تھے؟ اگر انہوں نے معافی مانگی تو اس کے پیچھے ہمیں دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی اس حکومت کے دوران اپنے آئینی فرض سے منہ موڑنا۔ دوسرا صدمے کا شکار سکھ فرقے کا بھروسہ جیتنا۔ دراصل سرکار کے فیصلہ کن عہدے پر بیٹھے شخص کا تجزیہ اس بات سے لگتا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں اس نے کیا کیا؟ آسام میں پچھلے 10 دنوں سے نسلی فسادات ہورہا ہے۔ وزیراعلی ترون گگوئی بیشک خود فساد کے ذمہ دار نہ ہوں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وقت رہتے انہوں نے فساد روکنے کے لئے ضروری قدم نہیں اٹھائے اور فسادبڑھتا گیا۔ گجرات دنگوں کے وقت نریندر مودی کے کردار پر اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ مودی کوراج دھرم نبھانا چاہئے۔ سیاسی حلقوں میں مودی کی پچھلے کچھ دنوں سے شروع ہوئی میڈیا مہم کی بحث تیز ہوئی ہے۔ مانا یہ جارہا ہے کہ وہ اگلے چناؤ میں پکے طور پر قومی سیاست میں اپنا ہاتھ آزمانا چاہتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اردو اخباروں کو انٹرویو دینے میں وہ پرہیز نہیں کررہے ہیں۔وہ جتانا چاہتے ہیں کہ حقیقت میں اتنے کٹر ہندووادی نہیں ہیں جتنا انہیں پیش کیا جارہا ہے یا سمجھ جارہا ہے۔ کئی موقعوں پر وہ کہہ چکے ہیں کہ احمدآباد سمیت ریاست کے کئی شہروں میں رہنے والی مسلم آبادی مسلسل خوشحال ہورہی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں ریاست میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ حالانکہ اپوزیشن پارٹیوں نے فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑکانے کے لئے کوئی کثر نہیں چھوڑی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔سوال یہ ہے کہ مودی اگر کوئی نئی بات نہیں کررہے اور گجرات دنگوں کو لیکر ان کا موقف اور صفائی وہی ہے تو پھر ان کی کئی باتوں کو لیکر اتنا سیاسی واویلا کیوں اب مچا ہوا ہے؟ اصل میں اصلی کھیل وقت کاہے۔ 2014ء میں وہ بھاجپا اور این ڈی اے کی طرف سے وزیر اعظم کے امکانی امیدوار بننا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں اس سال کے آخر میں گجرات اسمبلی چناؤ میں نہ صرف ایک بار پھر جیت دلانے ہوگی بلکہ بڑی جیت درج کرانی پڑے گی۔ مودی کو یہ امتحان بھی دینا ہے جب ان کی اپنی پارٹی اور ریاست اور اتحاد میں بھی ان کو لیکر شش و پنج کی حالت بنی ہوئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قومی سیاست میں بھاجپا کی قیادت کرنے اور اگلے عام چناؤ میں ہونے والے وزیر اعظم بن کر ابھرنے کی ان کی توقعات تبھی پوری ہوسکتی ہیں جب ان کی ساکھ سدھرے اور وہ سب کے لئے ایک قابل قبول لیڈر بن سکیں۔ ابھی تو ان کے نام کو لیکر ہی سنگھ کے ساتھ ساتھ بھاجپا میں بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ این ڈی اے میں تو ان کے نام کو لیکر کھلی دراڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں