پاکستانی سپریم کورٹ کا ’سموسہ انصاف‘


پاکستان کی سپریم کورٹ پچھلے کافی عرصے سے سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے۔ صدر آصف علی زرداری ، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے عدالت کی کھلی جنگ کے بیچ ایک دلچسپ قصہ سامنے آیا ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کس چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں دخل اندازی کررہی ہے اس معاملے سے پتہ چلتا ہے۔ معاملہ تھا پاکستان میں سموسے کی قیمت کا۔ دیش کی سپریم کورٹ نے سموسے کی قیمتوں کو لیکر سرکار اور دوکانداروں کو لیکر چل رہی لڑائی میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے پنجاب سرکار کے اس حکم کوخارج کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ دوکاندارسموسے کو 6 روپے (بھارت کے ساڑھے تین روپے) سے زیادہ قیمت میں نہیں بیچ سکتے۔ صوبائی سرکار کے اس فیصلے کے خلاف پنجاب ورکس اینڈ سوئٹس فیڈریشن نے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ پاکستان میں سموسے بیحد مقبول ہیں اور رمضان کے مہینے میں اس کی بکری آسمان چھونے لگتی ہے لیکن کئی برسوں سے اس کی بڑھتی قیمت کو لیکر لوگ ناراض تھے۔ اس پر2009ء میں لاہور انتظامیہ نے سموسے کی قیمت (زیادہ سے زیادہ 6 روپے تک) طے کر دی تھی اور ایک عدالتی حکم کے تحت مہنگا سموسہ بیچنے والے دوکانداروں پر جرمانہ لگانے کی سہولت تھی۔ پنجاب ورکس اینڈ سوئٹس فیڈریشن نے اس وقت بھی اپیل دائر کی تھی۔لاہور ہائی کورٹ نے اسے خارج کردیا تھاتب فیڈریشن سپریم کورٹ گئی۔ اب عدالت عظمیٰ ایک مرتبہ پھر دیش میں چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کی کوشش بھی کرچکی ہے لیکن وہ بھی طے قیمت سے زیادہ بکتی ہے۔ فیڈریشن نے دلیل دی تھی کہ سموسہ پنجاب غذائی سامان (کنٹرول) قانون 1958 کی فہرست میں نہیں ہے۔ ایسے میں صوبائی سرکار اس کی قیمت طے نہیں کرسکتی جبکہ پنجاب حکومت کی دلیل تھی کہ مفاد عامہ میں وہ ایسا کرسکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ کے ذریعے سموسے کے معاملے کا نوٹس لیا اور فیصلہ دینے کا مذاق اڑایا ہے۔ اخبار ’ڈان‘ نے اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کو’ سموسہ انصاف‘ قراردیا ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے دوکانداروں کو تو اس سے فائدہ ہوگا لیکن دیش کے سینکڑوں اہم معاملوں میں انصاف کا انتظار کررہے لاکھوں لوگوں کو اپنی باری آنے کی راہ دیکھنی ہوگی۔ اس نے کہا کہ آپ لاہور کے کسی بھی بازار میں چلے جائیں سموسہ چھ روپے سے زیادہ میں ہیں بک رہا ہے ایسے میں کیا عدالت کو اپنا قیمتی وقت سموسے میں برباد کرنا چاہئے؟ ہمارا خیال ہے کہ جہاں دیش میں سیاسی اتھل پتھل کا دور چل رہا ہوں اور امن و قانون کی سنگین حالت ہے تو دیش کی سپریم کورٹ کو ایسے چھوٹے چھوٹے غیر اہم اشو سے بچنا چاہئے۔ ہم سمجھ سکتے تھے کہ اگر آٹا، چاول ،چینی ،دودھ جیسی ضروری غذائی چیزوں کی قیمت پر سپریم کورٹ قابو کرتی ۔ لیکن سموسے جیسے کھانے کی چیز پر ٹائم برباد ہی کرنا ہے؟؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟