کیا سید محمد کاظمی پر دہلی پولیس جھوٹا کیس بنا رہی ہے؟



Published On 22 March 2012
انل نریندر
اسرائیلی سفارتخانے کی کارمیں دھماکے کے معاملے میں گرفتار صحافی سید محمد کاظمی کیا بے قصور ہے یا انہیں زبردستی دہلی پولیس نے گرفتار کیا ہے یا یہ حملے میں ایک اہم کڑی ہے؟ یہ سوال کاظمی کی گرفتاری کے بعد سے ہی اخباروں میں بنا ہواہے۔ ایک سینئر صحافی نے کہا کہ دہلی پولیس نے اسرائیل او امریکہ کے کہنے پر کاظمی کو گرفتار کیا اور اس کی گرفتاری کی اصل وجہ تھی ۔وہ اپنی رپورٹوں میں مشرقی وسطیٰ کے صحیح حالات پیش کرتا تھا جس سے دونوں اسرائیل اور امریکہ ناراض ہیں۔ اسے روکنے کیلئے دہلی پولیس نے یہ ڈرامہ رچا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر اور سرکردہ شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے لکھنؤ میں کہا کہ دہلی پولیس کمشنراسرائیلی ایجنٹ ہیں اور ان کی پراپرٹی کی جانچ ہونی چاہئے۔ مولانا جواد نے میڈیا سے کہا دیش میں پچھلے قریب 20 برسوں سے بے قصور مسلمانوں کو دہشت گردی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ 13 فروری کو دہلی میں ہوئے دھماکے میں سینئر صحافی سید محمد کاظمی کی گرفتاری اس کی نئی کڑی ہے۔ دوسری طرف دہلی پولیس نئے نئے ثبوت پیش کررہی ہے۔ معاملے کی جانچ میں لگے ذرائع نے بتایا کاظمی کے ایران سے گہرے رشتے ہونے کے پکے ثبوت ملے ہیں۔ کاظمی کئی بار ایران گیا تھا۔ اس دوران اس نے دھماکے سے وابستہ دوسرے ایرانیوں سے ملاقات کی تھی۔ کاظمی نے پولیس کو بتایا کہ وہ 7 جنوری2011ء کو ایران گیا تھا۔ اس بار اس کی ملاقات سید علی اور علی رضا سے ہوئی تھی۔ سید علی نے اسے ایرانی سائٹ پر موت کا بدلہ لینے کی بات کہی تھی۔ سید نے اسے تہران میں 3 ہزار ڈالر اور ایک موبائل فون بھی دستیاب کرایا تھا اور واپس دہلی لوٹنے پر اس کی کئی بار سید سے فون پر بات چیت ہوئی۔مئی2011ء میں ایران سے اسے سید نے فون کر اسرائیلی ڈپلومیٹ کو نشانے بنانے کی بات کہی۔ اسے اس حملے کے لئے ایران سے آنے والے لوگوں کے لئے دہلی میں مدد کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔ پولیس کا دعوی ہے کہ پلاننگ کے مطابق ایرانی حملہ آوروں کو دہلی آنے پر کاظمی نے انہیں صرف قرولباغ میں واقع فیض روڈ پر ہوٹل میں ٹھہرایا تھا بلکہ اسرائیلی ڈپلومیٹ کے آنے جانے کا روٹ پتہ کرنے میں بھی ان کی مدد کی تھی اس کے لئے کرائے پر لی گئی موٹر سائیکلوں کا استعمال کیا گیا۔
خیال رہے کہ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جور باغ کے کربلا علاقے میں مقیم اس فری لانس صحافی محمد کاظمی کو 6 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کمشنر نے بتایا کہ 2011ء میں جب کاظمی ایران گیا تھا تو اس کی ملاقات سید علی مہدیانی اور محمد رضا و ایرانی افسر سے ہوئی تھی۔ ملیشیا میں سرگرم گینگ کے ماسٹر مائنڈ محمد مسعود کی ہدایت پر سید علی اور محمد رضا نے دہلی میں اسرائیلی سفارتکارپر حملہ کروانے میں کاظمی کو پیسے کا لالچ دیا اس کے لئے 5500 ڈالر دینے کی بات کہی گئی۔ کاظمی تیار ہوگیا اور پھر ایرانی افسر کے ساتھ دہلی آگیا۔ 10 فروری کو سید احمد، محمد رضا خان اور عبدالفجی مہدیانی بھی دہلی آگئے۔ تینوں کاظمی کے یہاں رکے ہوئے تھے ۔اگلے دن کاظمی کی آلٹو کار میں بیٹھ کر تینوں نے اسرائیلی سفارتخانے کے ساتھ ساتھ نئی دہلی رینج کے علاقے کا جائزہ لیا اور حملے کا خاکہ تیار کیا۔ ادھر افسر ایرانی نے قرولباغ میں رہنے والے ایک لڑکے کے تعاون سے ایک اسکوٹی خریدی تھی اس کا استعمال کار میں اسٹیکی بم لگانے کے لئے کیا گیا تھا۔ افسر ملیشیا میں بیٹھا اس کا آقا مسعود کے رابطے میں تھا۔ ادھر مسعود کی رضامندی پر 14 فروری کو بینکاک اور جارجیہ میں حملہ کیا گیا۔ حملے کو مرادی سعید اور محمد قاضی نے انجام دیا تھا۔ محمدقاضی کو بینکاک پولیس نے گرفتار کرلیا ہے وہیں ملیشیا پولیس کے ہتھے سبھی دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ مسعود بھی چڑھ گیا۔ دہلی میں ہوئے دھماکے کے 24 گھنٹے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایک ٹیم دہلی پہنچ گئی تھی اور مسلسل جانچ کررہی ہے۔دہلی پولیس کے ذرائع کے مطابق موساد کے ایجنٹ جلد ہی ریمانڈ پر چل رہے کاظمی سے پوچھ تاچھ کرسکتے ہیں وہیں دہلی پولیس پورے معاملے سے پردہ اٹھانے کے لئے ملیشیا میں گرفتار مسعود سے بھی پوچھ تاچھ کرنے کے لئے ملیشیا سرکار سے رابطے میں ہے۔ اب دہلی پولیس صحیح کہہ رہی ہے یا یہ ساری کہانی زبردستی بنائی گئی ہے اس کا فیصلہ تو عدالت میں ہی ہوگا۔ امید ہے کہ سچائی کی جیت ہوگی۔ ویسے دہلی پولیس کویہ کیس عدالت میں ثابت کرنا ہوگا۔ اس سے دہلی پولیس کی ساکھ وابستہ ہے۔ یہ معاملہ اب پوری طرح سے بین الاقوامی رنگ اختیار کرچکا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, Mohd. Ahmed Kazmi, delhi Police, Iran, Israil, Bomb Blast, Delhi Bomb Case,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟