کیا منموہن، پرنب اور مونٹیک سنگھ 28 روپے میں گزارہ کرسکتے ہیں؟



Published On 24 March 2012
انل نریندر
پلاننگ کمیشن پتہ نہیں کونسی دنیا میں رہتا ہے۔ اس کی غریبی کی نئی تشریح تو غریبوں کا مذاق اڑانے جیسی ہے۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق دیہات میں 22.42 روپے اور شہروں میں 28.65 روپے یومیہ خرچ کرنے والا شخص غریب نہیں ہے۔ اگر وہ غریب نہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ امیر ہیں؟ پچھلے سال ستمبر میں پلاننگ کمیشن نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے غریبی کے جو پیمانے پیش کئے تھے اس کو لیکر کافی واویلا مچا تھا۔ اس وقت غریب کا جو پیمانہ تیار کیا گیا تھا اس کے مطابق شہروں میں 32 روپے اور دیہات میں 28 روپے خرچ کرنے والا شخص غریب نہیں مانا گیا تھا۔ اقتصادی ماہرین اور سیاسی پارٹیوں کے ہنگامے پر سرکار غریبی کے نئے پیمانے تیار کرنے کو راضی ہو گئی تھی لیکن پیر کو غریبی کے جو نئے پیمانے پیش کئے گئے وہ تو پچھلی بار سے بھی زیادہ بے تکے اور بے بھروسہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص غریب ہے اسے ماننے میں سرکار کیوں ہچکچارہی ہے؟ پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک پلاننگ کمیشن کے وائس چیئرمین اور منموہن سنگھ کے چہیتے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ (جنہیں وزیر اعظم وزیر خزانہ بنانا چاہتے تھے) نشانے پر ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے نئے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ دیش میں غریبوں کی تعداد گھٹ گئی ہے اور شہروں میں جس کی جیب میں28 روپے ہیں وہ تو غریب نہیں ہے۔ ان عجیب و غریب اعدادو شمار پر پارلیمنٹ میں بھاجپا اور یا لیفٹ پارٹیاں سبھی نے سرکار اور مونٹیک سنگھ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بھاجپا کے ایس ایس اہلووالیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کیا وزیر اعظم یا وزیر خزانہ یومیہ 28 روپے میں گزارہ کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں نہیں جانتا کونسی لائن کھینچی جارہی ہے 28 روپے کے یومیہ خرچ کو بنیاد مان کر غریبی کی روک تھام کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خط افلاس کی لائن نہیں ہے بلکہ یہ بھکمری کی لائن ہے۔ جنتادل (یو) کے ایم پی شیوآنندتیواری نے الزام لگایا کہ پلاننگ کمیشن ورلڈ بینک کے اشاروں پر کام کررہا ہے۔ جنتا دل (یو ) کے شردپوار نے اس موضوع پر بولتے ہوئے کہا کہ پلاننگ کمیشن کے نئے پیمانوں کو دیش کے غریبوں کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے۔ پلاننگ کمیشن کے وائس چیئرمین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ جب بھی بولتے ہیں تو دیش میں واویلا کھڑا ہوجاتا ہے اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ پلاننگ کمیشن میں ایسے شخص کو بٹھایا جائے جو ورلڈ بینک کا سابق ملازم نہ ہوکر بنیادی حقیقت سے واقف ہو۔ شرد یادو نے کہا میری سرکار سے التجا ہے کہ پلاننگ کمیشن کو اس شخص (مونٹیک سنگھ) سے چھٹکارا دلائے یا پلاننگ کمیشن کو بند کردیں۔ سشما سوراج نے کہا کہ پلاننگ کمیشن کو کیا الزام دیں، قصور تو سرکار کا ہے جو مانتی ہے۔ رپورٹ میں کمیشن نے پہلے بھی مذاق اڑایا تھا۔ رگھوونش پرساد سنگھ کی رائے بھی اسی طرح کی تھی۔ غریبوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق غربت کے خاتمے سے متعلق اسکیموں پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے لکھا پڑھا نہیں ہوں لیکن حقیقی طور پر دور دراز کے گاؤں میں جاکر دیکھئے ،اگر اس کی سچائی کی نظر سے دیکھا جائے تو دیش کی آدھی سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کررہی ہے۔ حکومت نے جلد ہی نئے غذائی سکیورٹی قانون کے نفاذ کی بات کہی ہے۔ اس قانون کے تحت دیش میں ہر غریب کو 2 روپے کلو گیہوں اور3 روپے کلو چاول دیا جانا ہے۔ ایسے میں دیش کی آدھی سے زیادہ آبادی کو رعایتی شرحوں پر گیہوں اور چاول مہیا کرانے سے سرکار پر مالی بوجھ کافی بڑھ جائے گا۔ اس لئے سرکاریں غریبوں کی تعداد کم کرکے دکھانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت اپنی اقتصادی اصلاحات کی پالیسی کی پائیداری کو ثابت کرنے کے لئے بھی غریبوں کی تعداد کم دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ جس حساب سے اس سرکار کی اقتصادی پالیسیاں جاری ہیں اس سے تو اگر غذائی اجناس کی قیمتیں صرف10 فیصدی بڑھتی ہیں تو میرے بھارت مہان میں تین کروڑ لوگ غریبی کی ریکھا سے نیچے آجائیں گے۔ ہماری تجویز ہے کہ ہمارے ماہراقتصادیات منموہن سنگھ ، مونٹیک سنگھ اور سی رنگاراجن جیسے درجنوں اس حکومت کے اقتصادی ماہرین دیش کے دور دراز دیہات کا دورہ کریں اور دیکھیں کے آج غریب آدمی کن حالات میں زندگی بسر کرنے کو مجبور ہے۔ ایسا کرنے کے بعد طے کریں غریبوں کی تشریح کی ڈیفی نیشن۔ یہ تشریح بکواس ہے، غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Manmohan Singh, Montek Singh Ahluwalia, Poverty, Pranab Mukherjee, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!