مسلم خواتین کی بدحالی پر کوئی سیاسی پارٹی بولنے کو تیار نہیں



Published On 24 March 2012
انل نریندر
دیش میں مسلمانوں کے شرعی قانون میں اصلاحات و مسلم پرسنل لاء قانون سمیت کئی اصلاحات کئے جانے کی مانگ زور پکڑ رہی ہے۔ ہندوستانی مسلم خاتون تحریک سے وابستہ مسلم مہلا شکشا، سلامتی، روزگار، قانون و صحت کے اشوز پر بیداری لانے کا کام کررہی ہے۔ اترپردیش کے کئی شہروں میں ہندوستانی مسلم خواتین تحریک و پرچم تنظیم مشترکہ طور سے مسلم خواتین کے درمیان جاکر انہیں مضبوط کرنے کی نئی راہ دکھا رہی ہیں۔ دیش میں مسلم خواتین کی حالت ہمیشہ سے زیر بحث رہی ہے۔ مسلم شرعی قانون میں اصلاح کرنے کا وقت آگیا ہے۔ 'دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔' ہندی فلم کا یہ گیت مسلم برادری کی خواتین کا درد بیاں کرتا ہے۔ ایک شوہر کے بھروسے ہی لڑکیاں اپنا مائیکہ چھوڑ کر سسرال آتی ہیں لیکن شوہر جب ایک کے علاوہ تین اور بیویاں رکھنے کا حق شریعت میں ا س صورت میں ہے اگر وہ شخص ایک سے زیادہ بیویوں کا خرچ برداشت کرنے کا اہل ہو اور صاحب حیثیت ہو۔اگر وہ شخص صاحب حیثیت نہیں ہے تو اس کی بیویاں پریشان ہوجاتی ہیں اور جس کے سبب انہیں اپنے لائق شوہر سے طلاق لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔مذہب کی آڑ میں کچھ لوگ خود ہی اپنے فائدے کے لئے دس طرح کی باتیں گڑھ لیتے ہیں اور اسلام میں بتائے گئے حالات اور وجوہات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔اور اپنی مرضی کے مطابق شرعی قانون کی تشریح کرتے ہیں۔ صوبہ یا ملک کی سیاسی پارٹیاں بھلے ہی ووٹ کی سیاست کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں لیکن دیش میں عورتوں کی حالت اتنی خراب ہے کے سیاسی پارٹیاں اقلیت کی شکل میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت تو کرتی ہیں لیکن عورتوں کے ساتھ ہورہے مظالم پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں اور پیچیدہ مسئلوں پر رائے زنی کے بعد ووٹ کھسکنے کے ڈر سے پارٹی اس سے کنارہ کرنا ہی مناسب سمجھتی ہے۔ ایسا نہیں کے سبھی مسلم گھرانوں میں حالات بدتر ہیں لیکن جتنے بھی معاملے پرسنل لاء بورڈ میں آتے ہیں وہ زیادہ تر مسلم خاندانوں سے ہی وابستہ ہوتے ہیں۔ 21 ویں صدی میں بغیر کسی اصلاح کے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے قانون میں اصلاح ہونا ضروری ہے۔ شریعت کے آگے پولیس اور موجودہ انسانی حقوق اور دیگر تنظیمیں سبھی لاچار دکھائی پڑتی ہیں۔ ایک خاتون عظیم النساء کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ گاؤں سلیم پور ،تھانہ سعاد اللہ ،شہر بلرام پور کی باشندہ ہے۔ وہ بے زبان ہے اس کی شادی ایک شخص فیروز ولد کتاب اللہ موضع برگھاٹ،تھانہ بوانی گنج، شہر سدھارتھ نگر میں ہوئی تھی۔ فیروز روزی کمانے کیلئے سعودی عرب چلا گیا، وہاں جاکر اس نے دوسری شادی کرلی۔ عظیم النساء اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ انصاف مانگ رہی ہے۔ مجبورہونے کی وجہ سے اپنی آنکھوں میں درد لئے گھومتی ہے۔ اب مہلا تھانے میں چلنے والے کنبہ جاتی صلاح مشورہ مرکز کے کونسلروں نعیم خان اور سنیتا پانڈے نے بیچ کا راستہ نکالتے ہوئے فیصلے کیا ہے کہ آنے والی یکم اپریل کو مہلا تھانے سے ہی عظیم النساء کی رخصتی ہوگی اور اس کی رخصتی اس کے جیٹھ سے اس بارے میں ایک حلف نامہ دینے کے بعد ہوگی کہ وہ اس کے شوہر کے آنے تک اس کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا انتظام کرے گا۔ دوسرا معاملہ حسینہ خاتون کا ہے۔حسینہ6 بچوں کی ماں ہے، اس کے شوہر عالم پر عشق کا بھوت سوار ہے وہ گاؤں کی ایک نابالغ لڑکی کو بھگا لے گیا ہے۔ بعد میں 376 کے تحت ملزم بناتے ہوئے جیل کی سزا کاٹ کر واپس آنے کے بعد اپنی بیوی حسینہ کو چھوڑنے کیلئے اذیتیں دینے لگا۔ اتنا ہی نہیں اس نے عدالت میں حسینہ پر طلاق کا دعوی بھی ڈال دیا ہے۔ تیسرا معاملہ شبنم کا ہے۔ موضع شہرت نگر کی باشندہ شبنم بانو کے والد محمد زکی کے دروازے پر ہاتھی باندھے جاتے تھے۔ اب وہ نہیں ہیں۔ شبنم کا نکاح محمد استخار ولد محمد کوثر موضع مینا،تھانہ اٹاوہ،شہر سدھارتھ نگر کے ساتھ ہوا۔ والدین کی اکلوتی اولاد شبنم کی رخصتی سے پہلے ہی استخار نے اپنی بیوی کے گھروالوں سے تین لاکھ روپے اور پوری زمین اپنے نام کرنے کی شرط رکھی تبھی ہم رخصتی کرکے لے جائیں گے۔ خاص بات یہ ہے کہ 20 سے30 سال کی عورتوں کا ہی گھر بکھر جاتا ہے۔شہر سمیت صوبائی علاقے میں یومیہ عورتوں کو اذیتوں سے متعلق واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کسی کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Muslim, Muslim Personel Law, Muslim Reservation, Muslim Women, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟