پان سنگھ تومر: ایک یادگارفلم



Published On 21 March 2012
انل نریندر
پچھلے دنوں میں نے ایک ایسی فلم دیکھی جس نے مجھے اندر تک ہلا دیا اور سوچنے پرمجبور کردیا کہ آخر پان سنگھ تومر جیسا شخص ڈاکو کیوں بنا؟ ماننا پڑے گا فلم ساز ہمانشوپھولیا اور یوٹی وی موشن فیکچر س نے عرفان خان اسٹار پانسنگھ تومر کو ایک مہان فلم کی شکل میں پیش کیا۔ بڑا لمبا سفر طے کیا ہے ہندی فلم اور بالی ووڈ نے سنیمائی برجوواد سے پانسنگھ تومر تک۔ بیچ میں اپنی زندگی میں ہی پھولن دیوی پر سنیما میں بینڈڈ کوئن بن گئی۔ اورلوک سبھا کی ممبر بھی بنی۔ پتہ نہیں پانسنگھ تومر نے کہیں اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فلم کے آغاز میں یہ مکالمہ بولا۔ بھیڑ میں تو باغی ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ڈکیت۔ تعجب یہ بھی ہے کہ سینسر بورڈ اس ڈائیلاگ کو کاٹانہیں۔ پانسنگھ تومر عام طور پر ایک خطرناک ڈاکو اور مان سنگھ، مانجھی سنگھ کی طرح چنبل کے ڈاکونہیں تھے وہ فوج میں بھرتی صوبے دار تھے اتفاق سے 1981میں مدھیہ پردیش کے وزیراعلی ارجن سنگھ ہوا کرتے تھے ان کے عہد میں ہی ڈاکو ملکھان سنگھ اور پھولن دیوی نے سرنڈر کیاتھا۔اسی پھولن دیوی کو شیکھر کپور نے بینڈڈ کوئن بنایا اور ہمانشو پھولیا اور اس کے معاون ہواکرتے تھے۔ ڈاکوؤں پر وقتاً فوقتاً فلمیں بنتی رہی ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے میں جے راج ڈاکو بنتے تھے۔راج کپور کی'' جس دیش میں گنگا بہتی ہے''یا سنیل دت کی ''مجھے جینے دو'' گنگا جمنا اور یہاں تک کے' مدر انڈیا' میں بھی سنیل دت نے ایک ویلن کا رول نبھایاتھا۔ پانسنگھ تومرمیں فلم کاہیرو پانسنگھ تومر مورینا کے ایک غریب کسان خاندان کالڑکا ہے جو بھر پیٹ کھانے کی خاطر فوج میں بھرتی ہوتا ہے۔ اس کو کھانے کی اتنی عادت تھی کہ اس کے ساتھیوں نے کہاکہ تم فوج کے کھلاڑی ونگ میں تبادلہ کرالو۔ اس کو دوڑنے کی پریکٹس کو دیکھتے ہوئے اسے ایک ایتھلٹ بننا ہوتا ہے اورگھوڑے کی طاقت کے ساتھ زورآزمائی کرتا ہے۔ اور بین الاقوامی اور قومی ایوارڈ جیتنے والے پانسنگھ کے خاندان کی زمین دادا گیری کرکے چھین لی جاتی ہے۔ اور جب پولیس انتظامیہ سے اسے کوئی مدد نہیں ملتی تو وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔اپنے ساتھ ناانصافی کے لئے لڑنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔ پانسنگھ کے ساتھ آپ ہنستے ہے اور آخر کار آپ کو افسوس ہوتا ہے۔ ناانصافی کے خلاف لڑائی میں جان گنوانی پڑی۔ آج کی مستی کا سامان پیدا کرنے والے نوجوان بھی پانسنگھ تومر کی فلم دیکھ کر خوش ہوجائیں گے۔ کیونکہ فلم ساز نے اتنی کمال کی فلم بنائی ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے بھی پردے سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاسکتے۔ فلم کے ڈائیلاگ اتنے دوراندیشی ہے کہ آپ کرداروں کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ پانسنگھ کے کردار میں عرفان خان نے زندہ دلی کے ساتھ یہ کردار نبھایا ہے۔ اداکاری کا کردار دکھانے والے اسے اسٹوری کی طرح بڑھا جاناچاہئے۔ آج کے وہ تمام لوگ جو اداکاری سکھانے والے ادارے میں اسے نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ اس فلم میں عرفان خان کی اداکاری اسی طرح کی یاد گار رہے گی۔ جس طرح دلیپ کمار کا کردار گنگا جمنامیں یاد کیاجاتا ہے۔ ان کی بے مثال ادا کاری تھی ۔اداکارہ ماہی گل کو اس فلم میں دیکھ کر یہ نہیں لگتا ہے کہ وہ پنجاب کی لڑکی ہے۔ وہ چنبل کی بیٹی کی طرح لگتی ہے۔ سبھی کو یہ فلم دیکھنی چاہئے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Films, Pan Singh Tomar, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!