بجٹ اجلاس میں یوپی اے سرکار کی اگنی پریکشا



Published On 19 March 2012
انل نریندر
یوپی اے کی منموہن سرکاربالکل بے سمت ہوچکی ہے عام آدمی کے نعرے کو لے کر اقتدار میں آئی یہ حکومت آج عام آدمی سے کتنی دور ہوچکی ہے شاید اسے یہ معلوم نہیں ۔ یوپی اے سرکار کا سفر کرپشن ،گھوٹالوں اور تنازعوں اور گڑبڑیوں کا تنگ راستہ رکتا نظر نہیں آتا۔ ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے جیسی پارٹیوں کی بیساکھیوں کے سہارے عہد پورا کرنے کی منزل تک پہنچنے کی جگت میں لگی یوپی اے سرکار کی مشکل تو یہی ہے کہ اس کے تنگ راستے میں آگے کنواں تو پیچھے کھائی نظر آتی ہے۔ سیاسی تنازعوں کے جھمیلے میں بار بار ایسی پھنستی ہے کہ پھرنہ تو پیر واپس کھینچتے بنتا ہے اور نہ ہی قدم آگے بڑھاتے ۔اس حکومت کی حالت کیا ہے؟یہ حکومت کیسے چل رہی ہے کوئی نہیں جانتا ۔اترپردیش کے چناؤ کے دوران مرکز کے دووزیر چناؤ کمیشن کو للکارتے ہیں تودوسرا وزیر کانگریس کے ایک یوتھ لیڈر کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے زیادہ قابل بناتا ہے۔ٹو جی معاملے میں خود وزیراعظم اوران کے دفتر کے درمیان شش وپنج کی حالت بنی ہوئی ہے اتنا ہی نہیں سرکار میں مایاوتی اورملائم کی مدد کیلئے سی بی آئی تک کا استعمال کیاگیا ۔آج بدقسمتی دیکھئے کہ انہیں ممتا اور ملائم اور مایا وتی تین ایم پر ٹکی سرکار کا مستقبل ٹکا ہے۔ ان تینوں میں دونے اگر سرکار کی حمائت نہیں کی تویہ حکومت بجٹ سیشن پار نہیں کرسکے گی۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی بے حد بھروسہ مند پارٹی کے اہم حکمت عملی ساز اور مرکزی سرکار میں ایک وزیر سپا چیف ملائم سنگھ یادو اوران کے اہم مشیر اور انوج رام گوپال یادو سے مسلسل رابطے بنائے ہوئے ہیں ۔
سپا ،بسپا کانگریس سمیت سبھی پارٹیوں میں برابرکی پیٹھ رکھنے والے کچھ صنعت کار بھی اس سیاسی آپریشن میں لگے ہوئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق پہلے سپا کو سرکار میں شامل کرنے سے انکار کرنے والی کانگریس نے ملائم کو سرکار میں شامل ہوکر مرکز کو مستحکم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ 22ایم پی والی سپا کو 4اہم وزارتیں دینے کی بات بھی شروع ہوگئی ہے۔ ان میں پیٹرولیم بجلی فولاد اور ممتا کے الگ ہونے کی صورت میں ریل وزارت تک بھی شامل ہے۔ سپا نے اپنی طرف سے کم سے کم تین کیبنٹ وزیر ،دووزیر مملکت کی مانگ رکھی ہے۔ سپا کو شیشے میں اتارنے کے لئے کانگریس نے اپنے سینئر لیڈر موتی لال ووہرا اور پون بنسل کو اکھلیش کی حلف برداری تقریب میں بھیجا تھا ۔اتحادی دھرم کی دہائی دینے والی کانگریس پر آج اسی کو نہ ماننے کا الزام اتحادی پارٹیاں اس پر لگارہی ہیں۔ ممتا نے اس سرکار کی بار بار کرکری کرواکر ثابت کت دیا ہے کہ یہ سرکار کتنی کمزور اور مجبور ہے۔ ممتا نے پہلے ہی دن سے تیور دکھانے شروع کردئیے تھے۔ وزیراعظم کے ساتھ بنگلہ دیش دورے پر نہیں گئیں بلکہ تستا ندی کا معاملہ اٹھاکر وزیراعظم کی اس یاترا پر پانی پھیر دیا اور ترنمول کانگریس نے اندرا بھون کا نام بدل کر نذرالاسلام رکھ کر کانگریس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کانگریس اور ممتا کے رشتے آج ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں۔ اسی پس منظر میں ترنمول کانگریس نے یکا یک لوک سبھا میں وسط مدتی چناؤ کی مانگ نے سب کو چونکا دیا ہے۔
اسی سیاسی ہلچل کو نیا موڑ یوپی اے کی اتحادی پارٹی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے دے دیا جب انہوں نے اترپردیش میں کانگریس کی ہار کا سہرا یووراج راہل گاندھی کے سر پھوڑدیا ۔ادھر ایک اور بیساکھی ڈی ایم کے نے اپنا ڈرامہ شروع کردیاہے۔ ترنمول کانگریس کو لے کر ابھی حالات قابو میں نہیں آئے کہ اب ڈی ایم کے نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ اس پارٹی کے نیتا پچھلے کئی دنوں سے سری لنکا کے تملوں کے مسئلہ پر اپنا موقف سخت کرنے کا دباؤ بناتے آئے ہیں۔ سرکار کی یقین دہانی کے باوجود ایم کروناندھی اکڑگئے ہیں ۔ناراضگی ظاہر کرنے کیلئے بجٹ پیش ہونے کے وقت ڈیم ایم کے کوٹے کے دووزیر پارلیمنٹ میں نہیں رہے یہاں تک کہ مرکزی وزیر مملکت پالن منے کم تو دہلی سے باہر ہی ہیں ۔ترنمول کانگریس کے بعد جس طرح سے ڈی ایم کے نے تمل اشو کے بہانے سرکار کو تیور دکھانے کی کوشش کررہی ہے ۔اس سے سیاسی عدم استحکام کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی نے کہا اگر سرکار کا رویہ تمل مسئلہ پر ٹھیک نہیں رہا تو ان کی پارٹی ترنمول کانگریس سے بھی زیادہ دباؤ بنانا جانتی ہے۔ یہ بات کانگریس لیڈر شپ کو نہیں بھولنی چاہئے دراصل یوپی اے کی اتحادی اور باہر سے حمایت دینے والی سیاسی پارٹیوں کو یہ واضح ہوچکا ہے کانگریس صدر سونیا گاندھی کا جادوبے اثر ہوچکا ہے ۔ممتا بنرجی کی حمایت واپس لینے کی صورت میں کانگریس نے سپا کو پٹانے کی کوششیں تیز کردی ہیں لیکن دنیش ترویدی معاملہ اور اتراکھنڈ میں وجے بہوگنا کو وزیراعلیٰ بنائے جانے سے ناراض ہریش راوت اتنی کوششوں اور لالچ دئیے جانے کے باوجود لائن پرنہیں آئے۔ اس سے سونیا گاندھی کی کوششوں کو اور دھکا لگا ہے ۔یوپی اے سرکار کے وجود کو لے کر چاروطرف تشویش کا ماحول بنا ہوا ہے ۔
یوپی اے کے لوک سبھا میں 255ایم پی ہیں ان میں ترنمول 19سپا 22 بسپا 21شامل ہیں ۔کانگریس کو 3ایم سے دوایم کی حمایت ضروری چاہئے۔ بجٹ راجیہ سبھا کے چناؤ اور جولائی میں صدر کے چناؤ تک کی چنوتی یہ سرکار کیسے پار کرے گی ؟ خاص کر صدراتی چناؤ میں کانگریس کو نہ صرف سپا بلکہ ترنمول کانگریس کی بھی ضرورت ہوگی۔ حکمت عملی سازوں کے تجزیہ کے مطابق یوپی اے کے پاس صرف 35%ووٹ ہیں۔ اس میں مغربی بنگال کے ووٹ بھی شامل ہیں ۔اگر ممتا یوپی اے سے الگ ہوتی ہے تو کانگریس کو اپنا امیدوار صدارتی عہدہ تک پہنچانے میں کافی مشقت کرنی پڑے گی ۔ ویسے صدارتی چناؤ میں تو ابھی وقت ہے۔ ابھی تو بجٹ اجلاس کو صحیح سلامت پار کرنے کی یوپی اے اتحادی سرکار کیلئے سب سے بڑی چنوتی ہے۔ اس اجلاس میں کانگریس کے حکمت عملی سازوں کی اگنی پریکشا ہونا طے ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!