ضمنی چناؤ نتائج کانگریس اور بھاجپا کیلئے تشویش پیدا کرتے ہیں



Published On 25 March 2012
انل نریندر
تازہ ضمنی چناؤ نتائج اگر کانگریس کے لئے تشویش کا باعث ہیں تو آندھرا پردیش کی 7 اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں اس کا صفایا ہونے کی خبر تو پارٹی کے لئے اچھااشارہ نہیں ہے۔ یہ ضمنی چناؤ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بھی اچھے اشارے نہیں دے رہے ہیں۔ گجرات کو بھاجپا اپنا گڑھ مانتی ہے اور کرناٹک میں بھی وہ قریب چار سال سے اقتدار میں ہے لیکن ان ریاستوں میں اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس اور بھاجپا ہی خاص حریف ہیں۔ اس لئے بھی یہ ہار بھاجپا کیلئے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ کرناٹک کی اڈوپی ۔چکمگلور سیٹ وزیر اعلی سدانند گوڑا کی تھی، وزیر اعلی چنے جانے کے بعد انہوں نے ہی اس سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ظاہر ہے اس سیٹ کو برقراررکھنا بھاجپا کے لئے وقار کا سوال تھا۔ مگر یہاں اسے کانگریس کے ہاتھوں 45 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے مات کھانی پڑی۔ صاف ہے کہ اقتدار کے خاطر پارٹی کے اندر جاری جوڑ توڑ اور رسہ کشی اور کرپشن کے الزامات اور اسمبلی میں فحاشی ویڈیو دیکھے جانے کے واقعہ سے ساکھ خراب ہوئی اس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا ہے۔ ڈسپلن کا دم بھرنے والی بھاجپا کے لئے آج ڈسپلن شکنی ہی سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
گجرات میں منسا اسمبلی سیٹ بھاجپا کے ہاتھ سے نکل کر کانگریس کی جھولی میں آنا وزیر اعلی نریندر مودی کے لئے بھی جھٹکا ہے۔ غورطلب یہ بھی ہے کہ منسا اسمبلی سیٹ گاندھی نگر لوک سبھا حلقے میں آتی ہے۔ جس کی نمائندگی لال کرشن اڈوانی کرتے ہیں لیکن یہ پہلا موقعہ نہیں جب بھاجپا کے اس گڑھ میں سیند لگانے میں کانگریس کو کامیابی ملی ہے۔ پچھلے سال نومبر میں میونسپل انتخابات میں بھی بھاجپا کی درگتی ہوئی تھی اس سال کے آخر میں ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس لئے منسا کی ہار جہاں نریندر مودی کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے وہیں کانگریس ضرور اس سے خوش ہوگی۔ آندھرا پردیش کانگریس کے لئے سب سے بڑا گڑھ رہا ہے۔ 2009ء کے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس یہاں 95 فیصدی سیٹیں جیت کر سیاست کے پنڈتوں کو چکمہ دے گئی تھی لیکن اس کے کرشمائی لیڈر سورگیہ راج شیکھر ریڈی سے اچانک موت اور ان کے صاحبزادے جگنموہن ریڈی کے کانگریس سے الگ ہونے کے بعد اس کا اثر شروع ہوگیا۔ اس کے بعد ریاست میں 17 اسمبلی اور 2 لوک سبھا سیٹوں پرضمنی چناؤ ہوچکا ہے، جس میں حکمراں کانگریس کا پوری طرح صفایا ہوگیا ہے۔ جہاں کانگریس ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی وہیں بھاجپا جیسی پارٹی جس کا صوبے میں زیادہ اثر نہیں ہے ، وہ بھی تین سیٹیں جیت چکی ہے۔ مرکزی سرکار میں بڑے گھوٹالوں کے انکشاف کے بعد کانگریس کو مہاراشٹر، راجستھان اور دہلی میں ہوئے ضمنی چناؤ میں بھی زبردست ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جہاں اس کی حکومتیں ہیں یہاں بھی ممبئی میونسپل چناؤ میں بھی اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ یعنی ہر اس جگہ سے کانگریس کو بری خبر مل رہی ہے جہاں اس کے پاس اچھی طاقت ہے۔ کیرل میں ہوئے ضمنی چناؤ میں کانگریس کی ساتھی پارٹی کانگریس(جیکب) نے اپنی سیٹ برقرار رکھی ہے۔ یہ نتیجہ کانگریس کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ریاست میں اس کی قیادت والی یوپی اے سرکار معمولی اکثریت پر ٹکی ہے۔ تملناڈو اور اڑیسہ میں بھی ایک ایک اسمبلی سیٹ پر ہوئے ضمنی چناؤ حکمراں پارٹی کے حق میں گئے ہیں۔ ویسے ضمنی چناؤ نتائج کو ہر حال میں عوامی رجحان کا اشارہ تو نہیں مانا جاسکتا لیکن کئی ریاستوں سے وہاں کے ووٹروں کے مزاج کا ضرور اشارہ ملتا ہے اور یہ اشارے نہ تو کانگریس کے لئے اچھے ہیں اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, By Poll, Karnataka, Andhra Pradesh, Gujarat, Modi, BJP, Congress,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟