جنرل سنگھ کا الزام نیا نہیں سبھی جانتے ہیں ڈیفنس سودے میں دلالی ہوئی



Published On 29 March 2012
انل نریندر
اپنی ملازمت کے آخری دور میں زمینی فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے جاتے جاتے ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے گھٹیا گاڑیوں کی سپلائی کے بدلے انہیں 14 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ جنرل سنگھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی پیدائش کا تنازعہ بھی اس لئے کھڑا کیا گیا کیونکہ وہ فوج کے کرپٹ عناصر کے خلاف تھے۔ انہوں نے کہا کہ فوج میں کرپشن کا کینسر اتنا پھیل چکا ہے کہ اب چھوٹے موٹے آپریشن سے کام نہیں چلے گا بڑی سرجری کرنی ہوگی۔ جنرل سنگھ کا یہ بیان بیشک سنسنی خیز ہو لیکن بھروسے مند نہیں۔ لیکن سیدھا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جنرل صاحب اسے فوراً کیوں سامنے نہیں لائے؟ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ڈیفنس سودوں میں دلالی کے لین دین کی آہٹ پتہ چلتی رہتی ہے۔ یہ ہتھیاروں سازوسامان اور دیگرسامان کی خرید کو لیکر بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔ اگر جنرل سنگھ کے نئے الزام کو توجہ سے دیکھا جائے تو ان کا نشانہ حکومت اور وزیر دفاع اے کے انٹونی ہیں۔ وزیر دفاع نے جنرل سنگھ کی یوم پیدائش والے تنازعے میں ان کی حمایت نہیں لی تھی۔ جنرل سنگھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ رشوت کی پیشکش کے بارے میں انہوں نے وزیر دفاع کو واقف کرایا تھا۔ یہ اچھا ہے کہ انٹونی نے معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کا حکم دے دیا ہے کیونکہ یہ سوال برقرار ہے کہ جب فوج کے سربراہ نے اس وقت کے وزیر دفاع کو اس معاملے سے واقف کرایا تھا تو پھر جانچ کرانے کا فیصلہ اب کیوں لیا گیا؟ کیا وزیر دفاع اس کا انتظار کررہے تھے کہ فوج کے سربراہ معاملے کو عوام کے سامنے لائیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ فوج کے سربراہ نے رشوت کی پیشکش کے اس معاملے کو یوں ہی کیوں چھوڑدیا تھا؟ ان سوالوں کا جواب چاہے جو ہو یہ صاف ہے کہ ہماری سرکاری مشینری کرپشن سے نمٹنے میں کوئی قوت ارادی نہیں رکھتی۔ کیا یہ مانا جائے کہ بچولیوں کا کردار صرف دوسرے ملکوں سے کئے جانے والے ڈیفنس سودوں میں ہی ختم ہوگیا؟ یہ بیحد بے عزتی کے مترادف ہے کیونکہ آزادی کے فوراً بعد یعنی1948 ء میں جیپ گھوٹالے سے دوچار ہونے والے دیش کو اب یہ سننے کو مل رہا ہے کہ کسی طرف سے ٹرک گھوٹالے کو انجام دینے کی کوشش کی گئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان طور طریقوں کو دور کرنے کیلئے کہیں کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جس سے گھوٹالوں کو روکا جاسکے۔
سب سے تشویشناک سوال یہ ہے کہ کیسے فوج کے سربراہ کو رشوت کی پیشکش ہوسکتی ہے؟ اس سے رشوت دینے والے دلالوں کی ہمت اور ان کی دیدہ دلیری کا بھی پتہ چلتا؟ کیا ڈیفنس سودہ بغیر دلالی دئے ہوسکتا ہے یا نہیں؟ کیا ممبر پارلیمنٹ اس سے واقف نہیں کے ڈیفنس سودوں میں دلالی ہوتی ہے؟ پھر یہ سب ڈرامہ کیوں؟ کیا سیاسی الزام در الزام سے دلالی رک جائے گی؟ اصل وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک اسے روکنے کا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ دلالوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ انہیں سزا دینے کے موزوں قاعدے قانون کی بھی کمی ہے اور اسی کا دلال فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یا تو یہ کریں کہ ایک یقینی فیصد کمیشن قانونی طور سے کردیں۔ آخر اخبار بیچنے کیلئے بھی تو ہم ہاکر کو کمیشن دیتے ہیں۔ ہاں کمیشن کے عوض میں گھٹیا سودا کم سے کم سکیورٹی سازوسامان میں منظور نہیں۔یہ تو دیش سے دھوکہ ہے اور جس کی کڑی سزا ہونی چاہئے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, General V.k. Singh, Manmohan Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟