پاکستان میں، ہندو۔ شیعہ اور عیسائی سمیت اقلیتیں نشانے پر ہیں



Published On 31 March 2012
انل نریندر
پاکستان میں لا اینڈ آرڈرکے حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ بدامنی کا عالم یہ ہے کہ آدمی صبح گھر سے نکلے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کے رات کو واپس وہ صحیح سلامت لوٹ سکے۔ نامعلوم بندوقیچیوں نے منگل کو کراچی شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر اور ان کے بھائی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد شہر میں تشدد بھڑک اٹھا۔ فسادیوں نے درجنوں گاڑیوں کو آگ کے حوالے کردیا اور تین افراد مارے گئے۔ ایم کیو ایم کے لیڈر منصور مختار کے گھر میں گھس کر ان کو گولیوں سے بھونا گیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر صغیر احمد نے قتل کے لئے امن کمیٹی ذمہ دار مانا ہے جو مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے وابستہ ہے۔مہاجروں اور دیگر اقلیتوں جن میں ہندوستانی نژاد لوگ بھی شامل ہیں، اکثر نشانہ بنتے ہیں۔ ایتوار کی رات کو کراچی کے کلکٹن علاقے میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا۔ اس میں ہندوستان کے جانے مانے شاہر منظر بھوپالی اور اقبال اشعر بھی شامل تھے۔ مشاعرے کی جگہ پر نامعلوم بندقچیوں نے حملہ کردیا۔ حملے میں خدا کے شکر سے ہندوستان کے دونوں شاعر بال بال بچ گئے۔ منظر بھوپالی نے بچایا کے جب ایتوار کی رات کو مشاعرے کی جگہ کے باہر وہ کھڑے تھے تب ہی اندر سے گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں دہشت کا ماحول بن گیا۔ لوگ جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ انہیں پولیس نے موقعہ واردات سے صحیح سلامت باہر نکالا۔ کراچی کے اس مشاعرے کو ایم کیو ایم کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حالت مسلسل خراب ہوتی جارہی ہے اور وہ اپنی سلامتی کو لیکر کافی فکرمند ہیں۔ اپنی 2011ء کی سالانہ رپورٹ میں اس نے بتایا ہے کہ پچھلے سال 389 اقلیتی طبقے کے لوگوں کو مارا گیا ان میں 100 کے قریب شیعہ بھی شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کا قتل کیا گیا ان میں سب سے زیادہ شیعہ فرقے کے تھے۔ احمدی فرقے بھی تشدد کا شکار ہورہے ہیں۔ کمیشن کا کہنا ہے پاکستان میں اقلیتی فرقہ خاص کر ہندو اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ محسوس کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں ہندو فرقے پر تشدد برپا کیا گیا اور انہیں دھمکیاں دی گئیں جبکہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور زبردستی شادی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ہندو فرقے کے 150 سے زائد لوگوں کو بھارت کی پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان ہندوؤں نے بھارت کے حکام سے کہا ہے اگر انہیں پاکستان واپس بھیجا گیا تو ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستانی سماج میں قوت برداشت ختم ہورہی ہے۔ رپورٹ میں ایک مثال بھی دی گئی ہے کے ایک معاملے میں آٹھویں جماعت کی ایک طالبہ پر شریعت کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا ۔ وہ بھی محض اس لئے کیونکہ وہ ایک لفظ کا مطلب صحیح سے نہیں ادا کر پائی۔رپورٹ میں عزت کے نام پر خواتین کے قتل کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں کہ پچھلے سال قریب943 عورتوں اور لڑکیوں کو عزت کے نام پر قتل کیا گیا۔ مرنے والی عورتوں میں 7عیسائی اور2 ہندو بھی شامل تھیں۔
پاکستان میں انسداد بے حرمتی شرعی قانون کی وجہ سے کئی ایسے لوگ زیادتیوں کا شکار ہیں جنہوں نے دو دہائیوں میں اپنے دیش چھوڑ کر بیرونی ممالک میں پناہ لی ہوئی ہے۔ انہی لوگوں میں ایک شخص جے جے جارج ہے جنہیں ایش نندا قانون کی وجہ سے 2007ء میں پاکستان چھوڑ کر فرانس میں بسنا پڑا۔ وہ ایک کامیاب وکیل تھے اور پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے مختلف امور پر قانونی صلاح دینے کا کام کیا کرتے تھے۔ 2002ء میں جب انہوں نے محمود اختر نام کے ایک قادیانی نوجوان کا مقدمہ لڑا تو انہیں طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ وہ یا تو وکالت چھوڑ دیں یا پھرملک چھوڑدیں یا محمود اختر کا مقدمہ چھوڑدیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے حالات شروع سے ایسے نہیں تھے۔ 1986ء میں ایش نندا قانون کے بننے کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔ جے جے جارج نے بتایا کہ ایش نندا قانون کی وجہ سے عیسائی فرقے کے لوگوں کو سب سے زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ کسی بھی شکایت پر بغیر ثبوتوں کے غورکئے دو لوگوں کی گواہی کی بنیادپر قصوروار ٹھہرادیا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں ہندو۔ شیعہ اور عیسائی سمیت دیگر اقلیتیں جتنی غیر محفوظ ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھیں۔
Anil Narendra, Christian, Daily Pratap, MQM, Pakistan, Pakistani Hindu, PPP, Shia, Vir Arjun

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟