پینسٹھ فیصدی کسان آج بھی روزانہ 20 روپے نہیں کماتے



Published On 28 March 2012
انل نریندر
ہندوستانی معیشت کی بنیاد زراعت ہے۔ ہندوستان کی جی ڈی پی میں زراعت اور اس سے متعلق اشتراک 2007-08 اور 2008-09 کے دوران بسلسلہ 17.6 اور 17.1 فیصد رہا اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھارت کا کسان ہی اس کی دھڑکن ہے اور ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر کسان خوشحال نہیں ہوگاتو دیش کبھی بھی خوشحال نہیں ہوسکتا۔ آج کسان کی اقتصادی حالت قابل رحم ہے۔ شہروں میں 28 روپے اور گاؤں میں 22.50 روپے میں خط افلاس تک بھلے ہی حکومت غریبی ہٹانے کا دعوی کرے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ 65 فیصد سے زیادہ کسان کنبے یومیہ20 روپے بھی نہیں کما پارہے ہیں۔ یہ انکشاف خود حکومت ہند کی وزارت زراعت کی جانب سے جاری اعدادو شمار سے ہوا ہے۔ اسے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گیہوں اور چاول سے لیکر ارہر ،اڑد ، مونگ و گننے سمیت تقریباً ہر فصل کی لاگت کسانوں کو مل رہی کم از کم قیمت سے کافی زیادہ ہے۔ یہ حال صرف ایک ریاست کا نہیں بلکہ درجن بھر سے زیادہ ریاستوں کا ہے۔ دوسری جانب کھیتی کے لئے ضروری کھاد ، بیج و ڈیزل جیسی چیزوں کے دام پچھلی دہائی میں کئی گنا بڑھے ہیں۔
حکومت نے پہلی بار سرکاری طور پر یہ اعدادو شمار جاری کئے ہیں۔ کسی فصل کی فی کوئنٹل پیداوار کی لاگت کتنی آتی ہے۔اعدادو شمار کے مطابق2008-09 میں کسانوں کو ایک ایکڑ ارہر کی کھیتی پر اوسطاً3349 روپے ، مونگ پر 1806 روپے اور اڑد پر 61.36 روپے کا خسارہ ہوا۔ اسی طرح ایک ایکڑ زمین میں گنا بونے پر اوسطاً4704 روپے کا نقصان ہوا۔ ایسے ہی ایک ایکڑ جوار کی کھیتی پر قریب ہزار روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔ جہاں تک گیہوں دھان کی بات ہے تو ان کی ایک ایکڑ کھیتی پر کسانوں کو ایک سال میں بسلسلہ 2200 روپے اور 4000 روپے کا اوسطاً منافع ہونے کی بات سرکاری اعدادو شمار میں دکھائی پڑتی ہے۔ گیہوں کی فصل تیار ہونے میں 5 مہینے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ اس طرح کسان کنبے کو ماہانہ آمدنی500 روپے سے بھی کم پڑے گی اس طرح دھان کی کھیتی پر بھی 4 مہینے سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس کے علاوہ جھارکھنڈ، ہماچل پردیش، مہاراشٹر اور مغربی بنگال ایسی ریاستیں ہیں جہاں 2008-09 میں گیہوں کی تھوک قیمت 1080 روپے تھی بمقابلہ لاگت اس کی زیادہ رہی ہے۔ اس طرح دھان کے معاملے میں ہی مہاراشٹر جھارکھنڈ ،تاملناڈو میں لاگت ایم ایس پی سے زیادہ ہے۔ وزارت کے مطابق دیش میں 65فیصد کسانوں کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کی تعداد سوا آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس یوپی اے سرکار کی ترجیحات ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ عام بجٹ کے بعد شاید پہلی بار ہوگا جب کھاد اتنی مہنگی ہوجائے گی کے کھیتی کو ہی کھانے لگے گی۔سرکار نے کھادوں پر دی جانے والی سبسڈی میں بھاری کٹوتی کردی ہے۔ اس سے تقریباً سبھی طرح کی کھادوں کے دام بڑھنا طے ہیں۔ کھادوں کی بڑھی مانگ کو پورا کرنے کے لئے باہر سے ہی منگانے کا یہ واحد سہارا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر قیمتوں کے بڑھنے سے گھریلو بازار میں کھاد کسانوں کی پہنچ سے باہر ہونے لگی ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں ایک دیش میں کھاد کا کوئی کارخانہ قائم نہیں کیا جاسکا۔ ان حالات میں ہمارے کسان بھائیوں کی حالت اور خراب ہونی ہی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Inflation, Montek Singh Ahluwalia, Poverty, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟