جنرل وی کے سنگھ کے خط نے کھڑے کئے سوال



Published On 31 March 2012
انل نریندر
زمینی فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے ذریعے وزیر اعظم کو لکھے خط جس میں بتایا گیا ہے کہ ہماری سکیورٹی فورس کے پاس ہتھیاروں کی کمی ہے۔ گولہ بارود وغیرہ کی کمی ہے، نے کئی سوال کھڑے کردئے ہیں۔ کیا جنرل کو ایسا خط لکھنا چاہئے تھا؟کیا ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ خط لکھنے کا صحیح وقت تھا؟ یہ خط کس سے اور کیوں افشاں کرایا گیا؟ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ ہیں کچھ سوالات جو آج زیربحث ہیں۔ جہاں تک جنرل کا خط ہے تو میں سمجھتا ہوں کے اگر زمینی فوج دیش کے وزیر اعظم کو یہ فوکس کرنا چاہتی ہے کہ ان کی لچر پالیسیوں اور بے قاعدگیوں کے سبب ہماری فوج میں ضروری سامان کی سپلائی نہیں ہورہی ہے اور اگر جنگ ہوتی ہے تو ہم اسے جیت نہیں سکتے، تو اس میں غلط کیاہے؟ کیا فوج کے سربراہ کو یا سیاستدانوں کو بتانا نہیں چاہئے کہ ہندوستانی فوج کی صلاحیت سے سمجھوتہ کیوں کیا جارہا ہے اور اگر اس کمی کو بلا تاخیر دور نہیں کیا گیا تو یہ فوج کے لئے خطرناک ہوگا۔ جہاں تک اس خط کے لکھنے کے وقت کی بات ہے جنرل کی عمر کے تنازعے کے بعد لکھنے سے تھوڑی سی بد نیتی کی بو ضرور آتی ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کیونکہ حکومت نے جنرل کی عمر میں ان کی مخالفت کی تھی اس لئے جنرل نے بدلے کے جذبے سے یہ خط لکھا ہے۔ سب سے اہم سوال جو ہے وہ یہ کہ خط کس نے آؤٹ کیا ہے؟ یہ خط یا تو فوج سے لیک ہوسکتا ہے یا پھر وزیر اعظم کے دفتر سے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جنرل نے خود اسے افشاں کیا ہوگا۔ مجھے شبہ پی ایم او پر ہے۔ اکثر پی ایم او سے خفیہ دستاویزات افشاں ہوتے رہتے ہیں۔ ٹوجی گھوٹالے میں بھی کئی دستاویزات وزیر اعظم کے دفتر سے لیک ہوئے۔ رپورٹ ہے کہ جنرل نے یہ خط چین کی بڑھتی فوجی طاقت کو لیکر لکھا تھا؟ خط میں سیدھے طور پر چین کی تیاریوں کے مقابلے بھارت کی تیاریوں کو دکھایا گیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کی ڈیفنس مشینری کے جدیدی کرن پر نوکرشاہی اڑنگے ڈال رہی ہے۔ جنرل سنگھ نے لکھا ہے مختار تبت علاقے میں چین کھلے عام تعمیرات کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہیں ہندوستانی فوج کی موجودگی تسلی بخش نہیں ہے۔ بھارت کی فوجی تیاریاں کھوکھلی ہیں۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ ہم چین کے سامنے طاقت کے حساب سے کہیں کھرے نہیں اترتے اور پاکستان کو ہم آج بھی ہرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ ویسے فوجی سامان کی سپلائی میں فوجی حکام کا بھی قصور کم نہیں ہے۔ جنرل کے خط سے یہ تو صاف ہوہی گیا ہے کہ کئی فوجوں کے افسر بطور کمیشن ایجنٹ کام کررہے ہیں۔ اب ڈسپلن کی کمی ہے مشقوں میں اتنا گولہ بارود کیوں برباد کیا گیا؟ 1971ء کے بعد سے ہماری فوج نے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی اس لئے صحیح معنی میں ہمیں اپنی فوجوں کی تازہ حالت کی صحیح معلومات نہیں ہے۔ جنرل سنگھ پچھلے کئی مہینے سے اپنی عمر کے تنازعے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں فوج کی تیاری کی فکر نہیں ہے ، کیا جنرل سنگھ نے یہ مزائل اس لئے تو نہیں داغی کے یوپی اے سرکار ڈیفنس بجٹ پر پوری توجہ دے رہی ہے اور فوجی سازو سامان کی سپلائی کو ترجیح دے۔ جو کچھ بھی ہو لیکن یہ دیش کے لئے اچھا نہیں ہے اور نہ ہی ہماری فوجوں کے لئے اچھے اشارے ہیں کہ ہماری تیاریاں پچھڑ چکی ہیں۔ تازہ جانکاری کا دیش کے دشمن زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرکار اور فوج کے چیف میں اتنی خلیج بھی دیش کے مفاد میں نہیں ہے اس لئے میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا جنرل سنگھ جھوٹ بول رہے ہیں؟ کیا فوجی سازو سامان کی سپلائی کافی نہیں ہے؟ کیا پی ایم او سے یہ خط افشاں ہوا ہے؟ جواب ہے جزوی طور سے یہ سبھی صحیح نہیں ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, General V.k. Singh, Indian Army, Manmohan Singh, Prime Minister, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟