اور اب ’’طلاق ‘‘بھی فوراً



Published On 30 March 2012
انل نریندر
منموہن سنگھ سرکار کی کیبنٹ نے ہندو شادی ایکٹ قانون میں ترمیم کو منظوری دے دی ہے۔ ہندوؤں میں طلاق لینے کا قانونی عمل اب آسان ہوجائے گا۔اس کے تحت اب ججوں کے لئے طلاق کا فیصلہ دینے سے پہلے18 ماہ کی دوبارہ غور کرنے کی مدت کا وقت ختم ہوجائے گا۔فیصلے کے مطابق سنوائی کے دوران جج کو اگر لگتا ہے کہ شادی بچانا مشکل ہے تو وہ طلاق کا فیصلہ فوراً سنا سکتا ہے۔ابھی موجودہ حالات میں آپسی رضامندی کے طلاق معاملے میں کورٹ 18 ماہ کا وقت پھر سے سوچنے کے لئے میاں بیوی کو دیتا ہے۔ اب یہ وقت دینا جج کے لئے ضروری نہیں ہوگا۔ اور اگر انہیں لگے کے شادی کو بچایا نہیں جاسکتا اور میاں بیوی کے درمیان اتنی گہری درار آچکی ہے جو بھری نہیں جاسکتی تو وہ دوبارہ غور کرنے کی مدت کو ختم کرسکتا ہے۔اسی کے ساتھ ایک اور دور اندیش فیصلہ کیا گیا وہ یہ کہ شادی کے بعد خریدی گئی شوہرکی جائیداد میں عورت کا حصہ طے ہوگا۔شوہر کی جائیداد میں حق دینے کے علاوہ میرج ایکٹ (ترمیم )بل 2010ء کا مقصد گود لئے بچوں کو، والدین سے جنمے بچوں کے برابر حق دلانا بھی ہے۔
دراصل دو سال پہلے راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہوا تھاپھر اسے قانون اور مذہبی معاملوں کی پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیجا گیا۔جینتی نٹراجن کی صدارت والی اس کمیٹی کی سفارشوں کی بنیاد پر بل کا مسودہ پھر سے تیار کیا گیا۔ اس کے مطابق طلاق کی صورت میں بیوی کو شوہر کی جائیداد میں حصے داری ملے گی لیکن حصے داری معاملے کی بنیادپر عدالتیں طے کریں گی۔ حالانکہ کیبنٹ کا فیصلہ تبھی لاگو ہوگا جب بل پارلیمنٹ میں پاس ہوگا۔ موجودہ حالات میں شادی کے بعد خریدی گئی جائیداد میں طلاق کے بعد عورت کا کوئی حق نہیں۔ گودلئے بچوں کے بارے میں موجودہ قانون میں گودلئے گئے بچوں کی کسٹڈی پر کوئی واضح حل نہیں ہے۔
ہندو میرج ایکٹ میں نئی بنیاد کو شامل کرنے کے مدعے پر قانون دانوں کی رائے ملی جلی ہے۔ ماہرین کی مانیں تو اس ترمیم سے دیش میں طلاق کے معاملوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ سینئر وکیل کی ٹی ایس تلسی کے مطابق وقت کے ساتھ قانون میں بدلاؤ ضروری ہوجاتے ہیں۔
آزاد سماج میں جو رشتہ سدھر نہیں سکتا اسے محض قانون کی بندش کی وجہ سے تھونپا جانا بالکل واجب نہیں ہے اس لئے نہیں سدھار سکنے والے رشتوں کو طلاق کو بنیاد بنایا جانا ہی ٹھیک فیصلہ ہے۔وہیں وکیل رچنا شریواستو نے کہا کہ اس بنیاد کا ناجائز استعمال مہلاؤں کے خلاف ہوسکتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے والے مرد اس بنیاد کا سہارا لے سکتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ ترمیم میں مہلاؤں کے مفاد کا خیال رکھا جائے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہمیں تنازعات بچانے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کے پریوار توڑنے کی۔اس سے سماج میں برا اثر پڑے گا اور شادی کے پاک رشتے کو نقصان پہنچے گا۔دھیرے دھیرے پشچمی دیشوں کی سنسکرتی بھارت میں آرہی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Hindu Law, Hindu Marriage Act. Hindu Succession Act, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!